رپورٹ: اسدمرزا
"جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے”
دنیا کے مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس کو ریاست کی شہ رگ کہا جاتا ہے۔ عوام حکومت کو ٹیکس دیتی ہے اور حکومت اس کے بدلے میں تعلیم، صحت، روزگار، سیکیورٹی، پانی، بجلی، گیس، شفاف عدالتی نظام، کرپشن سے پاک ادارے اور ایک باوقار زندگی جیسے بنیادی حقوق فراہم کرتی ہے۔ یہی نظام عوام کے اعتماد کو مضبوط کرتا ہے، جس کی بدولت ریاستیں ترقی کرتی ہیں، خوشحالی آتی ہے، اور معاشرہ سکون اور تحفظ کا گہوارہ بنتا ہے۔
لیکن پاکستان اس بنیادی اصول سے یکسر الٹ چلنے والا شاید دنیا کا واحد ملک ہے۔
یہاں ریاست ٹیکس تو ضرور لیتی ہے، بلکہ ہر ممکن ذریعے سے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے میں مصروف نظر آتی ہے۔ لیکن بدلے میں عوام کو کیا دیا جاتا ہے؟ سہولیات تو دور کی بات، ریاستی ادارے عوام کے لیے خوف، ذلت اور محرومی کا باعث بن چکے ہیں۔
بجلی، پانی اور گیس: سہولت یا سزا؟
پاکستان میں بجلی ہو یا پانی، گیس ہو یا پیٹرول، ان کی قیمتیں ہر گزرتے دن عوام کی دسترس سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ اکثر علاقوں میں بجلی کئی کئی گھنٹے غائب رہتی ہے، اور جہاں آتی ہے وہاں اوور بلنگ ایک معمول بن چکی ہے۔ گیس کی فراہمی صرف اشتہارات میں نظر آتی ہے، اور پینے کا صاف پانی آج بھی کروڑوں پاکستانیوں کے لیے خواب ہے۔ کیا یہ ہے ریاست کی ذمہ داریوں کا نبھانا؟
سرکاری محکمے: خدمت کے مراکز یا کرپشن کے اڈے؟
جو شخص کسی سرکاری دفتر میں قدم رکھتا ہے، وہ عزت، سہولت یا انصاف کے بجائے سفارش، رشوت اور بے عزتی کا سامنا کرتا ہے۔ کرپشن اس قدر نظام میں جڑ پکڑ چکی ہے کہ اگر آپ "حق” پر بھی ہوں تو "نذرانہ” دیے بغیر آپ کی بات نہیں سنی جاتی۔ پولیس ہو، پٹواری ہو، محکمہ مال ہو، یا صحت، سب ایک دوسرے سے بڑھ کر "لوٹ مار” میں مصروف ہیں۔
روزگار یا رسوائی؟
تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، جبکہ ملازمتیں صرف ان کے لیے مخصوص ہو چکی ہیں جن کی جیب میں سفارش ہو یا پشت پر سیاسی تعلق۔ نادار عوام کے بچے مزدوری اور محنت کشی میں کھو جاتے ہیں، اور جو میرٹ پر آنا چاہتے ہیں، انہیں بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔
عوامی تحفظ یا فورسز کا خوف؟
حکومت نے مختلف ناموں سے درجنوں فورسز تشکیل دی ہیں، جن کا مقصد بظاہر عوام کا تحفظ ہے، لیکن عملاً ان کے اقدامات عوام کے لیے مزید خوف، بے چینی اور دباؤ کا باعث بن چکے ہیں۔ یہ فورسز بجائے اس کے کہ چور، ڈاکو، بھتہ خور اور قاتلوں کے خلاف کارروائی کریں، یہ زیادہ تر عام شہریوں کو تنگ کرنے، جرمانے کرنے، اور ان پر اپنی رٹ جتانے میں مصروف ہیں۔
جرم کرنے والا آزاد، اور شریف شہری مجبور
شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب میڈیا پر کسی چوری، ڈکیتی یا قتل کی خبر نہ آتی ہو۔ اور المیہ یہ ہے کہ اکثر مجرم آزاد گھومتے ہیں، اور انصاف کے متلاشی سالوں عدالتوں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب عوام ریاست سے بیگانہ ہونے لگتی ہے۔
نتیجہ: ریاستی ناکامی یا منظم غفلت؟
پاکستان کا مسئلہ صرف کرپشن یا نااہلی نہیں، بلکہ ایک ایسا نظام ہے جو عوام دشمن پالیسیوں پر قائم ہو چکا ہے۔ حکومت عوام سے ٹیکس تو لیتی ہے، لیکن اس کا مصرف صرف حکمرانوں کی عیاشی، غیر ضروری پروجیکٹس، پروٹوکول، غیر پیداواری اخراجات، اور بیرون ملک جائیدادوں میں دکھائی دیتا ہے۔
جب تک ریاست ٹیکس کا اصل فلسفہ نہیں سمجھے گی، اور اس رقم کو عوام کی فلاح کے لیے استعمال نہیں کرے گی، تب تک نہ عوام خوشحال ہو سکتے ہیں، نہ ملک ترقی کر سکتا ہے۔ آج ہمیں محض حکومتیں بدلنے کے بجائے سوچنے کی ضرورت ہے کہ نظام کیسے بدلا جائے؟


