تحریر: بےنقاب ٹی وی
"جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے”
دو ہزار روپے کا چالان…
الفاظ میں شاید مختصر، لیکن غریب کے لیے یہ رقم اُس کی ایک ہفتے کی روٹی، بچوں کا دودھ، ماں کی دوا، اور باپ کی مزدوری سے جُڑی امیدوں کا جنازہ ہے۔
پنجاب بھر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر جاری ہونے والے چالان اب صرف قانون کی پاسداری کی علامت نہیں رہے، بلکہ معاشی نابرابری اور طبقاتی تفریق کی جیتی جاگتی مثال بن چکے ہیں۔ خاص طور پر موٹر سائیکل سوار — جن میں اکثریت محنت کشوں، رکشہ ڈرائیوروں، مزدوروں اور دیہاڑی داروں کی ہے — ان کے لیے دو ہزار روپے کا جرمانہ ایک زخم نہیں، بلکہ روزانہ کی بقا پر کاری وار ہے۔
جس کے دن کا آغاز اینٹیں اٹھانے سے ہوتا ہے، جو سورج کی پہلی کرن کے ساتھ نکلتا ہے اور پسینے سے شرابور شام کو واپس آتا ہے، اُس سے دو ہزار کا جرمانہ لینا کسی سزائے موت سے کم نہیں۔
جس کے ہاتھ میں رنگ کا برش ہو یا سامان سے بھرا ہوا رکشہ، وہ قانون توڑنے کے ارادے سے نہیں، مجبوری سے نکلتا ہے۔ اور جب اُسے پولیس والا روک کر چالان تھما دیتا ہے، تو وہ پرچی نہیں، اس کی عزت نفس، غربت اور ریاستی بے حسی کا اعلان ہوتا ہے۔
امیر کے لیے یہ جرمانہ شاید صرف ایک چائے یا سگریٹ کی قیمت ہو، لیکن غریب کے لیے یہ اس کے چولہے کی آگ بجھانے والی ٹھنڈی راکھ ہے۔
یہ رقم وہی ہے جو وہ بچوں کے اسکول کے جوتے، ماں کے بلڈ پریشر کی دوا، یا اپنے پیروں کے پرانے چپل کی مرمت کے لیے سنبھال کر رکھتا ہے۔
دلچسپ اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ٹریفک کے اصول پڑھانے والے خود کتنے بااصول ہیں؟
جو لفٹر "رانگ پارکنگ” پر گاڑیاں اٹھاتے ہیں، وہ خود بغیر نمبر پلیٹ اور نان کسٹم شدہ ہیں۔
یہ کیسا قانون ہے جو کمزور پر برس پڑے اور طاقتور کے سامنے جھک جائے؟
کیا قانون کی لاٹھی صرف غریب پر ہی برسنی ہے؟
کیا یہ انصاف ہے کہ قانون امیروں کے لیے نرم اور غریبوں کے لیے زہر بن جائے؟
قانون بنانے والے بتائیں: کیا قانون صرف نچلے طبقے کے لیے ہے؟
کیا اصلاحات صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جن کے گھر میں فاقے ہیں؟
کیا وہ بچہ جس کا باپ موٹر سائیکل پر مزدوری کو نکلا ہو، اسے صرف اس لیے بھوکا سلایا جائے کہ باپ کا سائلنسر ٹوٹا ہوا تھا؟
یہ چالان نہیں — یہ ریاست کی طرف سے ایک طمانچہ ہے، جو روز کسی نہ کسی محنت کش کے چہرے پر پڑتا ہے، مگر اس کی آہ فائلوں کے انبار میں کہیں گم ہو جاتی ہے۔
آج بھی کسی چوک پر ایک مزدور اپنی جرمانے کی پرچی دیکھ کر سر پکڑ کر بیٹھا ہوگا۔ وہ خود سے نہیں، اس نظام سے سوال کر رہا ہوگا: “میری غلطی کیا ہے؟”
یہ صرف رپورٹ نہیں، ایک پکار ہے… یہ صرف کالم نہیں، غریب کے سہمے دل کی آواز ہے۔

