لاہور:لاہور ہائیکورٹ نے ایک اہم فیصلے میں قرار دیا ہے کہ پولیس کریکٹر سرٹیفکیٹ میں ان مقدمات کا ذکر نہیں ہونا چاہیے جن میں کسی شخص کو عدالت نے باعزت بری کر دیا ہو یا جنہیں خارج کر دیا گیا ہو۔
عدالت نے یہ فیصلہ ایک ایسی درخواست پر دیا جس میں ایک شہری نے چیلنج کیا تھا کہ بری ہونے کے باوجود اس کے پولیس کریکٹر سرٹیفکیٹ میں اس کے خلاف درج ایف آئی آر کا ذکر تھا۔
لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عبہر گل خان نے شہری عبد الرحمن کی درخواست پر چھ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا، فیصلے کے مطابق عدالت نے بریت کے باوجود سی آر او میں ایف آئی آر کے ریکارڈ کو غیر ضروری قرار دے دیا ہے۔
جسٹس عبہر گل خان نے فیصلے میں لکھا کہ جب کوئی ملزم کسی کیس سے بری ہوتا ہے تو قانون کی نظر میں اس کا مطلب بریت ہی ہوتا ہے ،بریت کے باوجود کسی بھی سرکاری دستاویزات میں اس ایف آئی آر کا ذکر کرنا غیر ضروری ہے
عدالت نے اس پر کہا کہ کسی کو بری ہونے کے بعد بھی مجرم ظاہر کرنا اس کے وقار اور آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ایسے اقدامات سے فرد کے لیے سماجی اور پیشہ ورانہ زندگی میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ عدالت کے مطابق، ایک شخص جب قانون کے مطابق بے گناہ قرار پائے تو اس کا ریکارڈ صاف ہونا چاہیے۔
یادرہے قبل ازیں پولیس کریکٹر سرٹیفکیٹ میں مقدمات کے بارے میں معلومات درج ہوتی تھیں، چاہے ان میں بریت یا خارج ہونے کا فیصلہ ہو چکا ہو۔ اس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو ملازمت حاصل کرنے یا بیرون ملک سفر کے لیے ویزا حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ ان افراد کے لیے ایک بڑی راحت ہے جو بے گناہی ثابت ہونے کے باوجود اپنے ماضی کے ریکارڈ کی وجہ سے مسائل کا شکار تھے۔

