لاہور(رانا افضل رزاق ایڈووکیٹ)حکومت پنجاب نے ایک بار پھر اپنی عوام دوست پالیسیوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے صفائی کا بوجھ بھی عوام کے کندھوں پر ڈالنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جی ہاں، اب سانس لینا تو ابھی فری ہے، مگر گلی صاف ہونے یا نہ ہونے کی فیس ہر حال میں ادا کرنا ہوگی۔نئے حکومتی فرمان کے مطابق رہائشی علاقوں میں ہر گھر سے ماہانہ 200 روپے، اور کمرشل علاقوں میں زیادہ سے زیادہ 5 ہزار روپے صفائی فیس وصول کی جائے گی۔ گویا اگر آپ گلی میں جھاڑو پھرتے ہوئے خواب میں بھی صفائی دیکھ لیں، تو اس کا مالی تاوان بھی ادا کرنا پڑے گا۔محکمہ بلدیات کے ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ شہری اور دیہی علاقوں کے لیے فیس مختلف ہوگی، یعنی جو کم گند والا علاقہ ہے وہاں سستی فیس اور جہاں کچرا زیادہ ہے وہاں مہنگی۔ منطق یہ ہے کہ گند کی قیمت ہے! لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ گندگی کی موجودگی کے باوجود عوامی جیب صاف کی جائے گی۔بلنگ، جیسا کہ بتایا گیا، ڈیجیٹائز ہوگی۔ مگر چونکہ ہم ٹیکنالوجی میں ہمیشہ ایک قدم پیچھے رہتے ہیں، اس لیے ابتدائی دو ماہ کا بل پرنٹ کر کے گھر بھیجا جائے گا۔ جو لوگ آن لائن فیس ادا نہ کر سکیں، ان کے دروازے پر کمپنی کے سپروائزر خود آئیں گے، تاکہ وہ براہ راست اس بات کی یقین دہانی لے سکیں کہ گند جمع ہوا ہے یا صرف پیسے۔یاد رہے کہ ستھرا پنجاب مہم پچھلے آٹھ ماہ سے بغیر فیس کے جاری تھی۔ یعنی بغیر کوئی صفائی کیے، عوام کو کم از کم سکون یہ تھا کہ کوئی چارج نہیں ہو رہا۔ اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ صفائی ہو یا نہ ہو، فیس ضرور ہو گی۔ آخر کار، کوئی تو ہدف پورا کرنا ہے۔ ترجمان کے مطابق، پہلے سال کا ہدف 15 ارب روپے ہے، صفائی کے نہیں، صرف صفائی فیس کے۔یہ خبر سن کر عوام کی حالت کچھ یوں ہے جیسے کوئی صفائی کے نام پر ان کی جیب میں ہاتھ ڈال کر، ان کے اندر کا آخری سکہ بھی نکالنے آیا ہو۔اگلا مرحلہ شاید ہوا فیسپارکنگ دیکھی فیس ہو، کیونکہ اگر آپ نے سڑک دیکھی ہے تو آپ اُس کے صارف ہیں، اور صارف کو فیس تو دینی ہی چاہیے۔ یہ حکومت ہے بھائی، یہاں کچھ بھی مفت نہیں، سوائے وعدوں کے۔

