تحریر : سہیل احمد رانا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
پاکستان میں جب بھی کوئی آفت آتی ہے تو عوام سمجھ لیں کہ ایک نہیں بلکہ دو مصیبتیں ساتھ لے کر آتی ہے۔ ایک طرف سیلاب متاثرین اپنی چھت، مال مویشی اور گھر بچانے کے لیے پانی سے لڑ رہے ہیں، تو دوسری طرف حکومت اور پولیس اپنی روایتی "کارکردگی” دکھانے میں مصروف ہیں — یعنی ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشہ دیکھنے میں۔
خبر ہے کہ سیلاب متاثرین کے خالی گھروں میں ریلیف ٹیموں کے بھیس میں آنے والے چوروں نے چھاپہ مار فلموں کو بھی شرما دیا۔ نامعلوم افراد نے اے سی آفس علی پور سمیت دیگر مقامات پر متاثرین کیلئے لائے جانیوالے خیمے اور راشن بیگز لوٹ لئے۔ سوال ہے یہ نامعلوم کون ہیں ؟ کیا یہ ہم ہی ہیں ؟۔۔۔۔قیمتی سامان، پانی کے پمپ، سولر پلیٹس، انورٹرز، بیٹریاں، گارڈر، پنکھے، واٹر ٹینک — غرض وہ سب کچھ جو کسی گھر کو "گھر” بناتا ہے — سب کشتیوں میں ڈال کر چور ایسے رفوچکر ہوئے جیسے حکومت اپنی ذمہ داری سے ہوتی ہے۔ حکومتی اداروں نے حسبِ روایت کاغذی ہدایات جاری کر کے فرض پورا کر دیا، پولیس نے بیان جاری کر دیا کہ "کارروائی کی جائے گی”، اور متاثرین نے یہ سبق سیکھ لیا کہ آفت سے بچ جانا کافی نہیں، اصل امتحان تو پولیس اور حکومت کی حفاظت میں زندہ رہنا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ملک میں دو قسم کی کشتی چل رہی ہیں ۔ ایک عوام کی، جو پانی کے رحم و کرم پر ہے۔
دوسری چوروں کی، جو پولیس اور حکومت کی "کامیاب سرپرستی” میں مزے سے گشت کر رہی ہے۔
سوال صرف ایک ہے۔ سیلاب کے پانی نے عوام کے گھر بہا دیے، لیکن حکمرانوں اور محافظوں کی غیرت کون سی آفت بہا لے گئی؟

