قصور ایک بار پھر خون کے آنسو رو رہا ہے۔ نواحی علاقے اولکھ بونگا کی چار سالہ معصوم نور فاطمہ کے ساتھ بدفعلی کے بعد بے دردی سے قتل کا دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ وہ ننھی کلی جو ابھی کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی، اس کی داستان نے پورے شہر کو سوگوار کر دیا۔ مرکزی ملزم پولیس ریڈ کے دوران گرفتاری سے بچنے کے لیے خود کو گولی مار کر موت کو گلے لگا گیا۔یہ سوال ہر دل میں اٹھ رہا ہے کہ آخر قصور ہی وہ سرزمین کیوں بن چکی ہے جہاں بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات بار بار سامنے آتے ہیں۔ ماضی میں زینب قتل کیس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ کوٹ رادھاکشن، گنڈا سنگھ اور دیگر علاقوں میں ایسے ہی کئی لرزہ خیز سانحات پیش آ چکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلے لوگ اپنی عزت کے خوف یا مقامی دباؤ کے تحت بچیوں سے زیادتی کے واقعات رپورٹ ہی نہیں کرتے تھے۔ دیہاتوں میں بااثر افراد کی مداخلت سے معاملہ دبا دیا جاتا، صلح صفائی یا جرگہ سسٹم کے ذریعے رفع دفع کروا لیا جاتا تھا۔ لیکن اب جب یہ واقعات صرف زیادتی تک محدود نہیں رہے بلکہ قتل جیسے بھیانک انجام تک جا پہنچے ہیں، تبھی مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ نور فاطمہ کے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملتے ہی تھانہ صدر پھولنگر پولیس نے بچی کے چچا کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا اور علاقے میں سرچ آپریشن کے ساتھ مساجد میں اعلانات کروائے۔ رات گئے بچی کی لاش گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ایک زیر تعمیر مکان سے ملی تو پورے گاؤں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ڈی پی او قصور عیسیٰ خان سکھیرا فوری موقع پر پہنچے اور کرائم سین یونٹ و فرانزک ٹیموں کو متحرک کیا۔ پوسٹمارٹم رپورٹ نے بچی کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کی تصدیق کی تو یہ کیس پولیس کے لیے ایک کڑا امتحان بن گیا۔ ڈی پی او کی قیادت میں پولیس ٹیموں نے علاقے کے 25 مشکوک افراد سے تفتیش کی۔ جدید سائنسی بنیادوں پر شواہد اکٹھے کیے گئے اور بالآخر 19 سالہ واصف تک پہنچا گیا۔ جیسے ہی ایس ایچ او راحیل خان نے ٹیم کے ہمراہ چھاپہ مارا تو ملزم نے گرفتاری کے خوف اور جرم کی ندامت میں خودکشی کر لی۔ پولیس کی بروقت کارروائی اور جدید طرز کی تفتیش نے بظاہر ایک اندھے کیس کو حل کر دیا، مگر سوال یہ ہے کہ آخر معاشرے میں ایسے درندے کیوں پیدا ہو رہے ہیں؟ قصور میں بار بار ہونے والے یہ المناک سانحات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اصل خرابی سماجی رویوں اور نظام میں ہے۔ جب تک والدین، اساتذہ، سماجی رہنما اور ریاست مل کر بچوں کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کریں گے، یہ زخم کبھی نہیں بھریں گے۔ قصور کی گلیوں میں ننھی نور فاطمہ کی یاد اب بھی زندہ ہے اور ہر ماں کی آنکھوں میں سوال بن کر گونج رہی ہے:
“آخر ہمارے بچے کب م حفوظ ہوں گے؟