تحریر اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
یہ ملک بھی عجیب ہے۔ یہاں ڈاکو پکڑا جائے تو حیرت ہوتی ہے، اور پولیس والا پکڑا جائے تو لطیفہ لگتا ہے۔ فیصل آباد کا ایس ایچ او ذیشان خالد رندھاوا انہی لطیفوں میں سے ایک ہے۔ وہ افسر جس پر کرپشن، منشیات فروشوں سے تعلق، قحبہ خانوں کے سرپرست ہونے، آئل چوری میں حصہ دار ہونے اور جرائم پیشہ افراد سے مالی فائدہ لینے جیسے الزامات ثابت ہو چکے تھے، وہ برطرف بھی ہوتا اور پھر کسی نہ کسی طاقتور سیاسی شخصیت کی سفارش پر بحال بھی ہو جاتا۔یعنی ایک طرف یہ قوم اپنی قسمت پر ماتم کرتی ہے اور دوسری طرف ایسے “قانون کے رکھوالے” لوگوں پر مسلط کیے جاتے ہیں جو قانون کے سب سے بڑے توڑنے والے ہوتے ہیں۔ ذیشان خالد رندھاوا کو بیس بار انکوائری افسر نے طلب کیا، وہ پیش نہ ہوا۔ لیکن افسران کا تمسخر اڑانے کے لئے اعتراف کرتا کہ بیس نہیں آٹھ بار بلایا گیا تو میں پھر بھی نہیں آیا۔ جب سینئر افسر نے اردل روم میں حاضر ہونے کو کہا، تب بھی غائب رہا۔ آخرکار اسے برطرف کرنا پڑا اور برطرفی کے فیصلے میں لکھا گیا کہ یہ شخص غیر نظم و ضبط، ناقابلِ اصلاح اور پولیس کی بدنامی کا باعث ہے۔ لیکن کیا ہوا؟ چند مہینے بعد وہ پھر بحال، پھر من پسند پوسٹنگ پر تعینات، پھر وہی کھیل جاری۔سوال یہ ہے کہ اس نظام میں اصل مجرم کون ہے؟ ذیشان رندھاوا یا وہ سیاسی اشرافیہ جو اس جیسے کرداروں کو ڈھال دیتی ہے۔ اور پھر وہ اعلی افسران جو جانتے بوجھتے ایسے افراد پر کمپرومائز کر لیتے ہیں۔ آخرکار نتیجہ وہی نکلا جس کا خدشہ تھا۔ غلام رسول نامی شخص اغوا ہوا، فیصل آباد لایا گیا، اور پھر ایک ایس ایچ او نے اسے ماتھے پر گولی مار کر ہلاک کیا۔ یہ واقعہ محض قتل نہیں، یہ انصاف کے منہ پر طمانچہ ہے۔طنز یہ ہے کہ جس پولیس کا کام شہریوں کی حفاظت تھا، وہی پولیس اپنی وردی کے سائے میں قتل کی سرپرستی کر رہی تھی۔ لیکن شاید یہ پہلا موقع ہے جب قسمت نے رخ بدلا اور سی سی ڈی کے ایماندار افسر نے اس کھیل کو توڑ ڈالا۔ سیاسی سفارشیں فیل ہوئیں، مگر اب بھی یہ شخصیات متحرک ہیں، تاکہ اپنے “کارآمد” آدمی کو بچا سکیں۔کالم نگار کی نظر میں یہ کیس صرف ایک شخص یا ایک قتل کا نہیں، یہ پورے نظام کی بیماری کی تشخیص ہے۔ ایسے افسران جب کرپشن، منشیات اور جرائم سے وابستہ ہوں اور پھر سیاسی اشرافیہ کے تحفظ میں کھیلتے رہیں تو عام آدمی کو انصاف کہاں سے ملے گا؟


