لاہور: (میاں وقار کی رپورٹ )جہاں سی سی ڈی کی کامیاب کارروائیوں نے جرائم پیشہ افراد کی نیندیں حرام کر دی ہیں، وہیں پنجاب پولیس نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنی آمدنی کے ذرائع کو بھی اپ گریڈ کر لیا ہے۔ذرائع کے مطابق پنجاب پولیس کے کچھ باکمال افسران نے اب سی سی ڈی اہلکاروں کا روپ دھارنا شروع کر دیا ہے۔ عوام کو اغوا کرنے، اور پھر رہائی کے بدلے معقول رشوت کا مطالبہ کرنے کا یہ نیا فارمولا نہ صرف کامیاب ثابت ہوا بلکہ اتنا مقبول ہوا کہ کچھ اہلکار تو خود کو سی سی ڈی کا بانی رکن بھی قرار دینے لگے۔اطلاعات ہیں کہ اگر رشوت کی رقم وقت پر ادا نہ کی جائے تو پولیس مقابلے میں مارنےکی خوشخبری بھی پیشگی دی جاتی ہے۔یعنی یا تو نقد دو، یا پھر جان سے ہاتھ دھو۔پنجاب کے مختلف علاقوں سے ایسی شکایات موصول ہو چکی ہیں اور چند اہلکاروں کے خلاف مقدمات کا اندراج بھی ہو چکا ہے۔ لیکن دل مانے نہ، دل تو بچہ ہے جی کے مصداق یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔لاہور کے نواب ٹاؤن میں رائیونڈ اور سٹی ڈویژن کے اہلکاروں کے خلاف بھی مقدمہ درج ہو چکا ہے۔سی سی ڈی پنجاب کے سربراہ نے صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اپنا یونیفارم تبدیل کرنے پر سنجیدہ غور شروع کر دیا ہے تاکہ عوام کم از کم اصل اور نقلی محافظ میں فرق تو کر سکیں۔تاہم یہ سوال اب بھی برقرار ہے کہ جرائم کم ہوئے یا صرف وردی بدل گئی؟پنجاب میں امن کا قیام اگر اسی اصلاحاتی انداز سے ہونا ہے تو پھر آئندہ شہریوں کو پولیس اور ڈاکو میں فرق جاننے کے لیے شاید نیشنل ڈیٹابیس سے مدد لینا پڑے گی۔
پنجاب پولیس یا "سی سی ڈی کے کزنز”؟ سہیل ظفر چٹھہ کا بڑا فیصلہ

