راولپنڈی :پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پاک فوج مکمل طور پر پرعزم ہے، تاہم اس ناسور کے دوبارہ سر اٹھانے کی بنیادی وجہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں سستی اور سیاسی مفادات پر مبنی رویے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی سطح پر ایک مؤقف اور متفقہ حکمتِ عملی اختیار کرنا ناگزیر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے بیس کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور ملک کی سکیورٹی افغانستان کو رہن نہیں رکھی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے جو ضروری اقدامات کیے جانے چاہییں، وہ کیے جائیں گے اور کیے جاتے رہیں گے۔
نور ولی مسعود کی موت کی خبر کی تصدیق یا تردید کیے بغیر پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ یہ جو آپ نے سٹرائیک کی بات کی اس پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر اور افغان (طالبان حکومت کے) ترجمان کے بیان کو نوٹ کیا گیا ہے۔
آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ پاکستان پڑوسی ملک سے صرف یہ کہتا آیا ہے کہ وہ اپنے ملک کو دہشت گردوں کی آماج گاہ نہ بننیں دیں۔انہوں نے پاکستان افغانستان سے یہ کہتا رہا ہے کہ آپ برائے مہربانی اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے استعمال نہ ہونے دیں۔
پریس کانفرنس سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ خیبر پختونخوا کے غیور عوام کے درمیان آ کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے عزم کی تجدید کے لیے آئے ہیں۔ ان کے مطابق، پچھلی حکومتوں نے نیشنل ایکشن پلان کے کئی اہم نکات حذف کیے، جس کے نتیجے میں شدت پسند عناصر کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملا۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے انکشاف کیا کہ دہشت گردی کے پیچھے سیاسی، مجرمانہ اور مقامی گٹھ جوڑ موجود ہے، جنہوں نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو پناہ دی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت، افغانستان کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے اڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہے، جس کے ثبوت موجود ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں اب تک 14 ہزار 500 سے زائد آپریشنز کیے گئے، جن میں 769 دہشت گرد ہلاک ہوئے، جب کہ صرف 2025 میں 10 ہزار 115 آپریشنز انجام دیے گئے۔ رواں سال کے دوران 917 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، جو گزشتہ دس برسوں میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ ان کارروائیوں میں پاک فوج کے 272 افسر و جوان، پولیس کے 140 اہلکار اور 165 شہری جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے خبردار کیا کہ دہشت گردی کے مسئلے کو سیاسی رنگ دینے اور بیانیے کی تقسیم نے قومی اتحاد کو نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے کہا، کیا آج ہم ایک بیانیے پر متفق ہیں؟ کیا دہشت گردوں سے مذاکرات کی آوازیں آج بھی نہیں آ رہیں؟ اگر ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو غزوات کبھی نہ ہوتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 2014 اور 2021 میں حکومتوں کو عدالتی نظام مضبوط کرنے اور پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کو فعال بنانے کی سفارش کی گئی تھی، مگر خیبر پختونخوا میں اب بھی اہلکاروں کی کمی کے باعث دہشت گردوں کو عدالتوں سے سزائیں نہیں ملتیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کے مطابق، بعض عناصر نے افغان مہاجرین کی واپسی کو بھی سیاسی ایشو بنا کر قوم کو گمراہ کیا، حالانکہ یہ اقدام قومی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی اسلحے کا دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جانا بھی خطے میں شدت پسندی کے بڑھنے کا ایک بڑا سبب ہے۔
ترجمان پاک فوج نے واضح کیا کہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے سیاسی و جرائم پیشہ عناصر کا گٹھ جوڑ کارفرما ہے، اور فوج ایسے کسی سیاسی دباؤ یا شعبدے بازی سے متاثر نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ سندھ اور پنجاب میں دہشت گردی کے واقعات کم اس لیے ہیں کہ وہاں سیاسی و دہشت گرد نیٹ ورکس کا اتحاد موجود نہیں، پچھلے تین ماہ کے دوران ہونے والے 70 فیصد حملے خیبر پختونخوا میں ہوئے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے زور دیا کہ شہداء کے خون پر سیاست کی اجازت نہیں دی جائے گی، اپنے مفادات کے لیے خیبر پختونخوا کے عوام کے جان و مال کا سودا نہیں ہونے دیں گے۔ منفی سیاست اور الزام تراشی کے بجائے سب کو اپنا قومی فریضہ ادا کرنا ہوگا۔
انہوں نے آخر میں واضح کیا کہ پاکستان زندہ باد ہے اور خیبر پختونخوا زندہ باد رہے گا، یہ حقیقت کوئی نہیں بدل سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اسمگلنگ اور غیر قانونی تجارت کا سلسلہ جاری رہا تو اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور تخریب کاری بھی پنپتی رہے گی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا مؤقف تھا کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے قومی اتحاد، سیاسی استحکام اور عدالتی اصلاحات ہی وہ راستے ہیں جو پاکستان کو پائیدار امن کی منزل تک لے جا سکتے ہیں۔
 
		
 
									 
					