تحریر: اسد مرزا
آڈیو سننے کےلئے لنک پر کلک کریں
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
کتا اور وہ بھی گلی کا یہ محاورہ برصغیرِ پاک و ہند میں گھٹیا لوگوں کی مثال دینے کے لیے بولا جاتا ہے، لیکن پولیس میں آج کل ایک آوارہ کتے نے سب کو گھما کر رکھ دیا ہے۔
جانوروں سے محبت کرنے والی خاتون (ب) نامی خاتون جیل روڈ پر گزرتے ہوئے ایک آوارہ کتے کی محبت میں کب گرفتار ہوئی، اسے پتہ ہی نہیں چلا۔ کتے خانہ بدوش یا جسے ہم ٹپر واسی کہتے ہیں، اس خاندان نے چغتائی لیب کے ساتھ پلاٹ پر قبضہ قائم رکھنے کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ تاہم خاتون(ب) ان کتوں کو گھر تو نہ لے جا سکی مگر انہیں روزانہ کھانا کھلانا شروع کر دیا۔ اپنے گھر سے جیل روڈ تک گاڑی پر آنا اور ان کے لیے امپورٹڈ فوڈ کھلانا—مانو کتوں کی تو قسمت کھل گئی—مگر یہ لو اسٹوری زیادہ دیر نہ چل سکی۔ ہوا کچھ یوں کہ ایک دن قریبی لیب کے ڈاکٹر صاحب جب اپنی گاڑی کے پاس پہنچے تو شومی قسمت سے اس ناہنجار کتے نے ان پر حملہ کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب زخمی تو نہیں ہوئے لیکن گاڑی کا بمپر ٹوٹ گیا۔
ڈاکٹر صاحب کے ڈرائیور ارشد کو جو غصہ آیا تو اس نے بوری میں لپیٹ کر اس گلی کے کتے کو گاڑی میں ڈالا اور شوکت خانم کے آس پاس بننے والی نئی آبادیوں میں سے کسی جگہ پھینک دیا۔
اگلے روز جب خاتون معمول کے مطابق کتوں کے لیے کھانا لے کر پہنچی تو کالا کتا غائب تھا۔ باقی کتوں کو کھانا ڈال کر کالے کتے کو آوازیں دیں، اس نے آوازیں دیں، ہر کونے میں کتے کو تلاش کیا، مگر کتے کا کوئی نام و نشان نہ ملا۔ (ب) کا دل غم سے ڈوب گیا اور اس کی راتیں بے چینی میں کٹنے لگیں۔
آپ سمجھ گئے؟ کہانی ختم؟ نہیں بھائی—اصل کہانی تو اب شروع ہوئی ہے۔ جب محبت، اعتماد اور خاموش وفاداری پر مبنی لو اسٹوری کی ہیروئن (ب) اپنے آوارہ کتے کی تلاش میں ہوش بھلا بیٹھی۔ اس نے گلبرگ کے پوش علاقے کے تھانے میں ایک سب انسپکٹر سے رابطہ کیا یا درخواست دی، حالانکہ متعلقہ پولیس اسٹیشن کوئی اور بنتا تھا۔ سب انسپکٹر نے ڈرائیور سے کتے کی معلومات لی اور اسے اپنے انداز میں کہا کہ کتا تلاش کر کے لاؤ۔ ڈرائیور ارشد کے بتائے ہوئے پتے پر خاتون (ب) بھی روزانہ شوکت خانم اور قریبی سوسائٹیوں کے چکر لگانے لگی—پی آئی اے سے لے کر او پی ایف تک اور ایل ڈی اے ایونیو سے لے کر ازمیر ٹاؤن تک ہر ہاؤسنگ سوسائٹی چھان ماری مگر کم بخت، مارے گلی کے کتے کا پتہ نہ چلنا تھا نہ چلا۔ اب کتے کی محبت کی ماری بیلا نے سب انسپکٹر سے کہا؛ جس پر اس نے کہا، "سیف سٹی اتھارٹی کی مدد سے کتا تلاش کرتے ہیں۔” نرم دل ( ب) نے سب انسپکٹر کے ذریعے ڈرائیور کو لالچ دیا کہ آپ چھٹی کر کے کتا تلاش کریں، چھٹیوں کی تنخواہ آپ کو خاتون( ب) دے گی۔
جہاں پنجاب پولیس کا ایک ماتحت افسر کتے کی لو اسٹوری سن کر اتنا متاثر ہوا کہ اس نے آؤٹ آف دی وے ( ب) کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا، کیونکہ غریب ڈرائیور ہی کا نام سامنے تھا تو ارشد کی کم بختی کا دور شروع ہوا۔ ہر دوسرے روز اسے اپنے فون کے واٹس ایپ پر کتے کی بازیابی کرانے کے پیغامات آنے لگے—کبھی کھلی اور کبھی چھپی دھمکیوں کے ساتھ: "دیکھو اگر کتے کو مار بھی دیا تو جہاں قبر بنائی وہ بتاؤ، میم صاحبہ کو بول دو، صحیح لوکیشن بتا دو گے تو انعام ملے گا۔ ارشد کو حکم ملا کہ جس گاڑی پر کتے کو جوہر ٹاؤن پر چھوڑ کر آئے ہو، اس کی تصویر، رجسٹریشن نمبر اور روٹ بتاؤ تاکہ سیف سٹی کیمروں کی مدد سے کتے کو تلاش کیا جا سکے۔
"بوری چڑھے کتے کو کہاں چھوڑا تھا، سچ سچ بتاؤ۔۔۔ اگر کتے کی صحیح جگہ نہ بتائی تو خاتون ہم سب کو نہیں چھوڑے گی، اس کے خلاف سخت کارروائی ہو سکتی ہے۔” جائے ماندن نہ پائے رفتن—اب بیچارہ ڈرائیور جائے تو کہاں جائے۔۔۔
https://


