تحریر : اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
لاہور کے مصروف علاقے اسلام پورہ میں گزشتہ روز ہونے والی دو گھنٹے طویل پولیس کارروائی نے ایک بار پھر سوالات کو جنم دے دیا ہے کہ شاہ گینگ جیسے خطرناک نیٹ ورک کو پہلے کیوں ختم نہ کیا گیا؟
شدید فائرنگ کے تبادلے میں شاہ ڈکیت گینگ کا مرکزی شوٹر ندیم عرف چھوٹا پٹھان مارا گیا۔ پولیس کے مطابق یہ شخص فیصل آباد سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں درجنوں افراد کے قتل، بھتہ خوری، ڈکیتی اور دہشت پھیلانے کی وارداتوں میں ملوث رہا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر پولیس کے پاس مکمل نیٹ ورک اور اس کی سرگرمیوں کی معلومات موجود تھیں، تو اتنی بڑی کارروائی اور عوام کی قربانیوں سے پہلے اسے کیوں نہ پکڑا گیا؟
ذرائع کے مطابق شاہ گینگ نے کئی برسوں تک خوف کی فضا قائم رکھی، عام شہریوں اور تاجروں سے بھتہ وصول کیا اور درجنوں گھروں کو اُجاڑ دیا۔ مگر اس کے باوجود یہ گروہ کھلے عام سرگرم رہا، گویا اسے کسی نہ کسی سطح پر اثر و رسوخ اور پشت پناہی حاصل تھی۔ پولیس اور تحقیقاتی ادارے یہ ماننے سے قاصر ہیں کہ ایک ایسا نیٹ ورک، جو سالوں تک درجنوں افراد کی جان لیتا رہا، بغیر طاقتور شخصیات کی حمایت کے سرگرم رہ سکتا ہے۔
شہری حلقے اب یہ سوال کر رہے ہیں کہ:
کیا پولیس نیٹ ورک کمزور تھا یا جان بوجھ کر خاموش رہا؟ کون سی بااثر شخصیات اس گروہ کی گرفتاری میں رکاوٹ تھیں؟ اور سب سے بڑھ کر، ان بے گناہ جانوں کا حساب کون دے گا جو شاہ گینگ کی بربریت کی بھینٹ چڑھ گئیں؟ اگرچہ سی سی ڈی حکام کا کہنا ہے کہ شاہ گینگ کے دیگر کارندوں کی گرفتاری کے لیے کارروائیاں جاری رہیں گی، لیکن عوام میں یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ اگر بروقت اور ایماندارانہ اقدامات کیے جاتے تو شاید کئی خاندان اجڑنے سے بچ جاتے۔ یہ واقعہ صرف ایک ملزم کے مارے جانے کا نہیں، بلکہ پولیس کی تاخیر، نظام کی خامیوں اور طاقتوروں کے اثر و رسوخ پر ایک کھلا سوالیہ نشان ہے۔


