تحریر :اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
پاکستان کی خواتین گزشتہ دو دہائیوں سے ایک عجیب و غریب سفر پر ہیں۔ کاغذوں پر قوانین یوں چمک رہے ہیں جیسے ہر گلی محلے میں انصاف کی فیکٹری کھل گئی ہو، مگر حقیقت میں یہ فیکٹریاں لوڈ شیڈنگ کے شکار اس کارخانے جیسی ہیں جو صرف سائن بورڈ پر چلتا ہے، اندر مشینیں برسوں سے زنگ آلود۔
کہا جاتا ہے یہ سب کچھ خواتین کی مضبوط تحریک کی مرہونِ منت ہے، لیکن کچھ کریڈٹ ہمیں اپنے آج کے وزیرِ اعظم اور اُس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو بھی دینا پڑے گا۔ جی ہاں، وہی شہباز شریف جنہوں نے خواتین کو ہراسانی سے بچانے کے لیے ایک ایسا میکنزم متعارف کرایا جسے دیکھ کر ہالی وڈ کی خفیہ ایجنسیوں کے ڈرامے بھی شرما جائیں۔ایک ماتحت خاتون افسر نے شکایت کی، اگلے ہی دن ایک پراسرار گاڑی سینئر خاتون افسر کے دروازے پر آ رکی۔ اندر لیپ ٹاپ رکھا تھا، پاس ورڈ صبح بتایا گیا، ٹاسک خفیہ مشن جیسا تھا۔ افسران کے خلاف انکوائری ہوئی، رپورٹ تیار ہوئی اور براہِ راست وزیرِ اعلیٰ تک پہنچی۔ منظر بالکل فلمی تھا۔ بس فرق یہ ہے کہ فلم میں آخر میں ہیرو انصاف دلوا دیتا ہے۔
یہاں عورت کی فریاد آج بھی درازوں میں بند غیر ضروری کاغذوں کی طرح دھول کھا رہی ہے۔افسران تو اس نظام پر حیران تھے ہی، عوام آج بھی حیران ہیں کہ اگر یہ سب کچھ اتنا ہی مؤثر تھا تو عام عورتیں تھانوں اور عدالتوں میں کیوں ذلیل و خوار ہیں؟ لگتا ہے انصاف کے یہ "خفیہ مشن” عام عورت کے لیے نہیں، صرف فائلوں اور خاص محکموں کی رونق بڑھانے کے لیے تھے۔رہا آن لائن جہان تو وہاں کہانی اور بھی دلچسپ ہے۔ عورت نے اگر اپنی رائے دی تو ٹرولنگ کا شکار، اگر خاموش رہی تو بے حیا قرار۔ گویا پدرشاہی سماج نے ہر سمت سے گھیرا ڈال رکھا ہے۔اصل طنز یہ ہے کہ خواتین کے لیے بننے والے یہ قوانین اکثر صرف سیمیناروں اور پاور پوائنٹ سلائیڈز کی جان ہیں۔ عملی میدان میں یہ قوانین ویسے ہی ہیں جیسے شادی کے بعد دلہا کا وہ مشہور وعدہ ،میں تمہیں خوش رکھوں گا، جو ہمیشہ زبان تک ہی محدود رہتا ہے۔سوال یہ نہیں کہ شہباز شریف یا دیگر حکمران کتنے قوانین بنا گئے، سوال یہ ہے کہ یہ قوانین انصاف کی فراہمی کے لئے عورت کے دروازے تک پہنچتے ہیں یا نہیں؟ جب تک ریاستی ادارے واقعی عورت کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے، تب تک یہ قوانین کاغذی شیر ہی رہیں گے، اور عورت کی زندگی میں انصاف وہی بزدل سا چوہا بنا رہے گا جو ہر بار اندھیرے میں چھپ جاتا ہے۔


