پولیس ذرائع کا دعوی ہے کہ بہادر عسکریت پسند ایک اورشاندار کامیابی کے بعد اس بار بھی فائرنگ کے تبادلے میں بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن قسمت نے اس بار ایک اور مظلوم شہری کو چن لیا مقامی کونسلر عشرفہ بی بی، جو مولانا نور زمان کی اہلیہ تھیں، فائرنگ کی لپیٹ میں آکر شدید زخمی ہو گئیں۔ انہیں ضلعی ہیڈکوارٹر اسپتال وانا منتقل کیا جا رہا تھا، لیکن راستے ہی میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئیں۔ بعد ازاں ان کا پوسٹ مارٹم کر کے لاش ورثاء کے حوالے کر دی گئی۔مقامی نمائندوں نے اس حادثاتی شہادت پر شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے اسے بڑا المیہ قرار دیا۔ ساتھ ہی شفاف انکوائری او ر شہداء پیکیج کے مطالبات بھی زور و شور سے کیے گئے۔ یعنی جیسے اس سرزمین پر زندگی گزارنے کے لیے اب بنیادی سہولتوں کے بجائےشہید پیکیج ایک لازمی سہارا بن چکا ہو۔دلچسپ امر یہ ہے کہ صرف ایک دن پہلے ہی برمل تحصیل کے اعظم ورسٹک علاقے میں سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین گولیوں کی برسات نے چار افراد کو زخمی کر دیا تھا، جن میں دو خواتین اور دو بچے شامل تھے۔ لیکن شاید یہاں زخمی ہونا یا مارا جانا کسی روزمرہ کے معمول کا حصہ ہے۔ادھر جمعرات کو مسلح افراد نے برمل تحصیل کے اعظم ورسک بازار سے عبید نامی نوجوان کو اغوا کر لیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق اغوا کار بڑی دیدہ دلیری سے موٹرسائیکل پر نوجوان کو کسی نامعلوم مقام پر لے گئے۔ پولیس نے حسبِ روایت علاقے کو گھیرے میں لے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ عوام کے لیے یہ بات اب معمول کی ہوگئی ہے کہ تحقیقات ہمیشہ شروع ہوتی ہیں، ختم کبھی نہیں ہوتیں۔مقامی آبادی سوال کر رہی ہے کہ آخر کب تک یہ تحقیقات شہید پیکیج اور غیر معینہ مقامات کے کھیل جاری رہیں گے؟ اور کب تک امن کے نام پر صرف نعروں اور کاغذی رپورٹوں سے ہی تسلی دی جاتی رہے گی؟