تحریر: اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانیہ میں کھڑے ہو کر جو بیان داغا، وہ یوں لگا جیسے کسی پاکستانی سیاستدان نے جلسے میں مائیک پکڑ لیا ہو۔ فرق صرف یہ تھا کہ یہاں "بگرام ایئربیس” تھا، اور ہمارے ہاں "کشمیر فتح” یا "ڈالر سو روپے کا” جیسے خواب۔ ٹرمپ نے فرمایا:
"ہم طالبان کو بگرام ایئربیس مفت میں دے بیٹھے، لیکن اب ہم اسے واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ سن کر برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کا چہرہ ویسا ہی ہوگیا جیسے پاکستانی وزیر خزانہ کا چہرہ اس وقت ہوتا ہے جب IMF کہے: "بھائی جان، سبسڈی واپس لو۔ اب سوال یہ ہے کہ ٹرمپ کو یہ "واپس لینے” کا خیال آیا کیسے؟ شاید ایسے ہی جیسے ہمارے ہاں ہر حکومت کو جاتے جاتے یاد آتا ہے کہ "کرپشن ختم کرنی تھی، معیشت سنبھالنی تھی، اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانی تھی۔ ٹرمپ نے مزید انکشاف کیا کہ بگرام اڈا ضروری اس لیے ہے کیونکہ یہ چین کے جوہری پلانٹ سے صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ گویا بندہ جغرافیہ بھی ایسے بیان کرتا ہے جیسے کوئی پاکستانی سیاستدان بجٹ تقریر میں ٹرکوں کی بتی کے پیچھے عوام کو لگائے رکھتا ہے۔ اب ذرا تصور کریں، اگر امریکہ واقعی بگرام واپس لینے نکلتا ہے تو طالبان دروازے پر کھڑے ہوکر وہی کہیں گے جو ہمارے پولیس والے کہتے ہیں
"جی بھائی، پہلے اجازت نامہ دکھاؤ! اور برطانوی وزیر اعظم کی حالت پر نہ جائیں۔ وہ تو ایسے ہکا بکا بیٹھے تھے جیسے پاکستانی عوام بجلی کا نیا بل دیکھ کر بیٹھتے ہیں۔ فرق بس اتنا تھا کہ اسٹارمر کے پاس میڈیا کے سامنے "سمائل” کا آپشن تھا، اور پاکستانی عوام کے پاس صرف "لینے کے دینے” والا بل۔ اب یہی کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ ہوں یا ہمارے لیڈرز، بیانات کا کمال یہ ہے کہ حقیقت سے زیادہ کامیڈی شو لگتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں CNN اور BBC مذاق اڑاتے ہیں، اور یہاں ہم خود اپنی حالت پر ہنستے ہیں۔


