تحریر: اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
پاکستان کے الیکشن 2024 کی ایک تازہ رپورٹ نے ایک بار پھر یاد دہانی کرائی ہے کہ ہمارے ہاں ووٹ کے میدان میں اصل "گیم چینجر” بزرگ نہیں بلکہ وہی نوجوان ہیں جو فیس بک پر میمز اور ٹک ٹاک پر ڈانس ویڈیوز اپلوڈ کرتے ہیں۔ جی ہاں! یہی نسل، جو رات کو فری فائر کھیل کر صبح ووٹ ڈالنے گئی، اور پھر شام کو ٹویٹر پر ہیش ٹیگ ٹرینڈ کروا دیا۔
رپورٹ کے مطابق رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 45 فیصد نوجوان تھے، یعنی تقریباً 5 کروڑ 68 لاکھ "قوم کے معمار”۔ ان میں سے 2 کروڑ 22 لاکھ تو پہلی بار رجسٹر ہوئے تھے، مطلب یہ کہ پہلی بار انہوں نے اپنا انگوٹھا لگانے کا حق، ووٹر لسٹ کے علاوہ شاید TikTok login میں بھی استعمال کیا۔
مسلم لیگ (ن) نے نوجوانوں کو "نوکریاں، لیپ ٹاپ اور معاشی خوشحالی” جیسے خواب دکھائے، لیکن انہیں فیصلہ سازی سے ایسے باہر رکھا جیسے اسکول کا گیٹ پر کھڑا چوکیدار اندر کی اسمبلی میں نہیں جا سکتا۔
دوسری طرف پی ٹی آئی نے نوجوانوں کو لڑائی جھگڑے، جلسے جلوس اور ٹویٹر وارز کا مرکزی کردار دے کر ان کا خون گرم رکھا۔ پالیسی سازی میں حصہ کم ملا، مگر نعرے لگانے، ڈیجیٹل مجاہد بننے اور پولیس سے آنکھ مچولی کھیلنے کے پورے مواقع فراہم کیے گئے۔
نتیجہ؟ نوجوان ووٹرز کی سب سے بڑی لہر پی ٹی آئی کے حق میں بہہ گئی۔ اور رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ پاکستان میں اب الیکشن جیتنے کے لیے صرف نعرہ یا منشور نہیں، بلکہ "یوتھ ونگ” اور "میڈیا ٹیم” لازمی ہتھیار ہیں۔
یعنی اب سیاستدانوں کے لیے فارمولا سادہ ہے:
"ٹک ٹاکر کو راضی کرو، ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ چلاؤ، اور الیکشن جیتو!”
کچھ یہی حال ہے ہمارے جمہوری سفر کا—جہاں نوجوان صرف ووٹ نہیں ڈالتے، بلکہ میوزک کے بیٹ پر سیاسی پارٹیوں کو نچاتے بھی ہیں۔



