تحریر : سہیل احمد رانا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
برصغیرکے دریا کے بیچ بیٹا اپنی ماں کی لاش کو تھامے ہے۔ سوات میں ایک فیملی دریا کنارے ناشتہ کر رہی تھی، پانی آیا اور وہ مدد کو پکارنے لگے، آواز سوشل میڈیا پر پہنچی لیکن حکومت تک نہ پہنچی۔ جھنگ کے گاؤں کلووالہ میں لوگ دس دن تک پانی میں ڈوبے رہے، نہ کھانا، نہ دوا، نہ کپڑا، نہ سر چھپانے کو خیمہ۔ یہ سب محض چند کہانیاں نہیں، یہ برصغیر کے ہر شہری کا نوحہ ہیں، جو برسوں سے حکمرانوں کی غفلت اور لاپرواہی کے بوجھ تلے ڈوب رہا ہے۔
ریاست ماں جیسی ہوتی ہے، یہ جملہ ہمارے حکمران ہر تقریر میں دہراتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ریاست ماں جیسی ہوتی تو سوات کی وہ فیملی ویڈیو بنانے پر مجبور کیوں ہوتی، چیخیں کیوں سوشل میڈیا تک پہنچتیں مگر حکومت تک نہ جاتیں؟ اگر ریاست ماں جیسی ہوتی تو شورکوٹ میں صحافی افضل سیال کو کیوں اپنے ہی حکمرانوں سے دہائی دینی پڑتی کہ 10 روز سے“میرا علاقہ، میری فیملی سب پانی میں ہیں، مگر کوئی مدد نہیں آ رہی”۔
یہ سب کچھ محض حادثات نہیں، بلکہ منصوبہ بندی کی ناکامی اور حکمرانوں کی بے حسی کا نتیجہ ہیں۔ سیلاب کوئی نیا دشمن نہیں، یہ ہر سال آتا ہے۔ لیکن ہر سال کی طرح حکومتوں کا رویہ بھی پرانا ہے: وعدے، دعوے، دورے اور چند تصویریں۔ جب پانی اترتا ہے تو ریلیف کیمپ اکھڑ جاتے ہیں اور عوام کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ برصغیر کی عوام کی زندگی سستی ہے اور حکمرانوں کے پروٹوکول مہنگے۔ یہاں ڈوبنے والوں کے لئے کشتیاں نہیں ملتیں، لیکن وزیروں کے قافلوں کے لئے نئی گاڑیاں ضرور خریدی جاتی ہیں۔ یہاں متاثرین کے لئے خیمے کم پڑ جاتے ہیں، لیکن اقتدار کے ایوانوں میں بجلی کا ایک بلب بھی بند نہیں ہوتا۔
یہ تصویر اور یہ کہانیاں دراصل چیخیں ہیں، جو کہہ رہی ہیں:
ہمیں امداد نہیں، انصاف چاہیے۔
ہمیں وقتی دلاسے نہیں، مستقل نظام چاہیے۔
ہمیں حکمرانوں کے دورے نہیں، ہماری زندگی کی ضمانت چاہیے۔
لاش ماں کی اُٹھائے ہے بیٹا
عرش کے دل کو ہلائے ہے بیٹا
یہ بیٹا، یہ فیملیاں، یہ سیلاب زدہ لوگ سب ایک ہی بات دہرا رہے ہیں کہ جب تک عوام اپنی آواز نہیں بنیں گے، تب تک حکمران بہرے رہیں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم سب مل کر ان سوالوں کو دہرا کر حکمرانوں کے کانوں تک پہنچائیں:
کیا ریاست واقعی ماں جیسی ہے؟ یا یہ صرف ایک نعرہ ہے جو ہر سیلاب کے ساتھ بہہ جاتا ہے؟

