تحریر: اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
دریا کو نہ وزیر کی پرواہ ہے، نہ وکیل کی۔
وہ نہ کسی جج کے کمرے میں پیشی بھگتتا ہے اور نہ ہی کسی ایم این اے کے ڈیرے پر سلامی دینے جاتا ہے۔ دریا کو تو بس اپنا راستہ یاد رہتا ہے۔ جب وہ اٹھتا ہے تو بڑے بڑے تخت و تاج بہا کر لے جاتا ہے، اور وہ سب کچھ واپس لے لیتا ہے جس پر انسان نے سمجھ رکھا تھا کہ یہ اس کے باپ کی جاگیر ہے۔
پچھلے 75 برسوں کی تاریخ گواہ ہے۔ غریب کی دو مرلے کی جھونپڑی پر بلڈوزر ایسے چڑھتا ہے جیسے کسی دشمن پر فوج۔ لیکن وہ فارم ہاؤس، کوٹھیاں، پلازے اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں جو دریاؤں کے راستوں پر کھڑی کر دی جاتی ہیں، ان کے لیے قانون کی آنکھوں پر ہمیشہ پٹی بندھی رہتی ہے۔ غریب کی چھت غیر قانونی، مگر طاقتور کا سو ایکڑ حلال۔
مگر ایک دن دریائے راوی نے کہا: "یہ زمین تمہاری جاگیر نہیں… یہ میرا راستہ ہے!”
اور پھر وہ آیا۔ محل کیچڑ بن گئے، فارم ہاؤس تالاب، اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں مچھلیوں کا جوہڑ۔ کل تک جو اپنی زمینیں دکھا دکھا کر سینہ پھلا رہے تھے، آج وہی پانی میں ڈوبی دیواروں پر بیٹھے چیخ رہے ہیں ۔اوئے کسی کے پاس پمپ ہے؟ یہ ہے اصل عدالت، جہاں تاریخ نہیں ملتی، بس فیصلہ ہوتا ہے—اور وہ بھی فوراً۔ اب پنجاب حکومت نے دریا کو روکنے کا خواب دیکھا ہے۔ "محفوظ راوی پراجیکٹ” کے نام پر کھربوں کا کھیل شروع ہو گیا ہے۔
150 ارب کا قرض،
64 ارب کا خرچ،
اور مجموعی لاگت 2 کھرب 14 ارب۔
نوے کلومیٹر لمبی دیواریں، 300 فٹ چوڑی اور 27 فٹ اونچی۔ گویا فطرت کو کہا جا رہا ہے:
"بھائی ذرا یہاں سے بہو، وہاں مت جانا!”
لیکن دریا کسی کا حکم نہیں مانتا۔ اسے نہ فائلوں کی پرواہ ہے، نہ بجٹ کی۔ وہ جب چلتا ہے تو سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے، حتیٰ کہ منصوبے بنانے والوں کے خواب بھی۔
اصل میں راوی کسی ضدی عاشق کی طرح ہے، جو بار بار دھوکہ کھا کر بھی واپس آ جاتا ہے۔
انسان لاکھ بند باندھ لے، لیکن دریا ہرجائی ہے… وہ پھر لوٹ کر آتا ہے، اور وہیں آتا ہے جہاں سے گیا تھا۔
“وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی“
یہی تو فطرت کا قانون ہے۔
قبضے، کوٹھیاں، کرپشن اور طاقت… سب وقتی ہیں۔ اصل مالک وہ ہے جس نے دریا کو بہنے کا حکم دیا ہے۔ اور جب وہ چاہے، دریا سب بند توڑ کر یاد دلا دیتا ہے کہ زمین آخرکار اس کی ہے۔


