تحریر:اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
پاکستان کا مقدر شاید یہی لکھ دیا گیا ہے کہ یہاں ہر قدرتی آفت کے بعد انسانوں کے ہاتھوں ایک اور آفت ضرور آنی ہے۔ اس وقت سیلاب نے 30 سے 35 ہزار گاؤں نگل لیے ہیں، اور 20 سے 25 لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں یوں بہہ گئیں جیسے کبھی زمین پر اگائی ہی نہ گئی ہوں۔ مگر کمال دیکھیے، ہمارے حکمرانوں کے چہرے پر وہی پرانی مسکراہٹ ہے اور زبان پر وہی گھسے پٹے جملے: "عوام گھبرائے نہیں، حکومت عوام کے ساتھ کھڑی ہے”۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ گندم کی قیمت نے بھی حکمرانوں کی طرح عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تین دن میں 2100 روپے سے سیدھی 3500 روپے من پر پہنچ گئی۔ یعنی اگر آپ سوچ رہے تھے کہ روٹی کے ساتھ سالن نہ بھی ہو تو گزارا ہو جائے گا، تو حضور اب وہ روٹی بھی 30 سے 40 روپے کی ہوگی۔ گویا اب سالن سے زیادہ روٹی کے نوالے پر سوچنا پڑے گا۔
پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین نے خبردار کیا ہے کہ گندم کا قحط آ رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قحط صرف گندم کا ہوگا یا انصاف، عقل اور حکمرانی کا بھی؟ کیونکہ جس ملک میں سبز کھیت اجڑ جائیں اور شہر کے بازار میں صرف مہنگائی کا شور بچ جائے، وہاں حکومتیں صرف امدادی پیکجز کے اشتہار دیتی ہیں اور عوام اپنے بچوں کو یہ کہہ کر بہلاتے ہیں کہ "بیٹا، صبر کرلو، یہ بھی ایک آزمائش ہے۔”
حیرانی کی بات یہ ہے کہ سیلاب متاثرین آج بھی کشتیوں میں اپنے گھر ڈھونڈ رہے ہیں اور وزراء آج بھی کیمرہ مین کے ساتھ پانی میں لانگ بوٹ پہن کر فوٹو سیشن کر رہے ہیں۔ جیسے کوئی نئی فلم کی شوٹنگ چل رہی ہو اور عوام اس فلم کے ایکسٹرا کردار ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب کل آپ کے دروازے پر 40 روپے کی روٹی دستک دے گی تو کیا آپ کے حکمران بھی دستک پر آئیں گے؟ یا پھر وہ روایتی جواب ملے گا: "ہم سب مل کر اس مشکل وقت کا مقابلہ کریں گے”۔
اصل میں یہاں سیلاب صرف کھیتوں کو نہیں بہاتا، یہ ہر بار امید بھی بہا لے جاتا ہے۔
سیلاب کا بھی زور غریبوں پر چل گیا
پانی نے ہر مکان کو ہموار کر دیا
ایک رات میں گاؤں کا نقشہ بدل گیا
چاول،اناج،دالیں، مربہ،اچار، گڑ
ایک سال کا تھا رزق جو پانی میں گھل گیا


