رپورٹ: اسد مرزا
"جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے”
یہ ملک اب غریب مخالف پالیسیوں کی تجربہ گاہ بن چکا ہے، جہاں ہر نیا حکم نامہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ غریب کا سانس لینا بھی ریاست کی مہربانی سے مشروط ہے۔ کبھی یہ لوگ دھوپ میں جوتے چٹخاتے کھیتوں میں کام کرتے تھے، مٹی کی خوشبو ان کے پسینے میں رچی ہوتی تھی۔ آج وہی ہاتھ راشن کی قطاروں میں کانپتے ہیں، اور قصور صرف یہ کہ اپنے کھیتوں سے بچھڑ گئے۔پیرا فورس کے اہلکار اب بازاروں اور چوراہوں پر وہی کر رہے ہیں جو بڑے بڑے منصوبے بھی نہیں کر سکے، یعنی غریب کی روزی کا آخری دروازہ بند۔ بس اسٹینڈ، ٹول پلازے، موٹر وے کے داخلی اور خارجی راستے، ہر جگہ کا منظر ایک سا ہے: ایک شخص کندھے پر سامان رکھے، یا ہاتھ میں چند اشیاء تھامے، روزی تلاش میں چلتا جا رہا ہے، مگر پیرا فورس کے نزدیک یہ جرم ہے۔
شہر کی مارکیٹوں جاری پیرا فورس آپریشن اس شان سے ہوا کہ جیسے کوئی اسمگلنگ مافیا پکڑا گیا ہو۔ احتجاج کرنے پر صاف لفظوں میں حکم ملا
دوکان کرو یا غائب ہو جائو۔ دکان؟ اس کے لیے سرمایہ چاہیے، اور سرمایہ؟ وہ تو ان کے پاس اسی دن ختم ہو گیا تھا جب وہ اپنی انا بیچ کر بچوں کا پیٹ پالنے نکلے تھے۔یتیم بچے، جو صبح اسکول جاتے ہیں اور واپسی پر مارکیٹوں میں چیزیں بیچ کر گھر چلاتے ہیں، وہ بھی اب خطرے میں ہیں۔ ان کے گھر کا چولہا ان کے چھوٹے ہاتھوں کے کاندھوں پر ہے، لیکن قانون کا ترازو صرف یہ دیکھتا ہے کہ ان کے ہاتھ میں کاغذی لائسنس ہے یا نہیں۔ غربت سے تنگ آ کر جب یہ گھرانے اجتماعی خودکشیاں کرتے ہیں، تب حکومتی وفود تعزیت کے لیے پھول لیے پہنچ جاتے ہیں۔ جیتے جی تو کسی کو ان کا نام تک یاد نہیں رہتا۔پیرا فورس نے خود تسلیم کیا ہے کہ کندھے پر سامان رکھ کر چلنا اور بیچنا ممنوع ہے۔ تو سوال یہ ہے، یہ آپریشن تجاوزات کے خلاف ہے یا غریب کے خلاف؟ بازاروں میں خریداری کرنے والے مرد، خواتین اور بچے بھی سامان اٹھائے پھرتے ہیں، کبھی گپ شپ کرتے ہیں، کبھی انتظار کرتے ہیں۔ کیا ان پر بھی گرفتاری ہوگی، یا قانون کی پکڑ صرف اس پر ہے جس کی جیب میں خالی بٹوا اور گھر میں خالی چولہا ہو؟یہ ریاست اب غریب سے کہہ رہی ہے: "یا مر جاؤ یا جیل جاؤ، مگر دو وقت کی روٹی کماؤ مت اور یہی اصل جرم ہے، بھوک کے خلاف مزاحمت۔


