اسرائیل کے 600 سے زائد سابق اعلیٰ سکیورٹی حکام نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپیل کی ہے کہ وہ غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے کردار ادا کریں۔ اس خط پر دستخط کرنے والوں میں موساد اور شاباک (داخلی خفیہ ایجنسی) کے سابق سربراہان کے ساتھ ساتھ اسرائیلی فوج کے سابق نائب سربراہ بھی شامل ہیں۔ یہ تمام افراد "کمانڈرز فار اسرائیل سکیورٹی” (CIS) گروپ کا حصہ ہیں۔
خط میں ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ جس طرح انہوں نے ماضی میں لبنان میں جنگ رکوانے میں کردار ادا کیا تھا، اسی طرح اب غزہ میں بھی مداخلت کریں۔ سابق افسران کا کہنا ہے کہ پیشہ ورانہ تجزیے کے مطابق حماس اب اسرائیل کے لیے بڑا خطرہ نہیں رہی۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ CIS گروپ نے اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالا ہو۔ اس سے قبل بھی یہ گروپ جنگی حکمت عملی میں تبدیلی اور یرغمالیوں کی واپسی کے لیے آواز بلند کرتا رہا ہے۔
اسی دوران برطانیہ کی ایک یونیورسٹی کے اسرائیلی پروفیسر نے غزہ کی صورتحال پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ امدادی مراکز اب "اسکوئیڈ گیم” یا "ہنگر گیم” جیسے مناظر پیش کر رہے ہیں، جہاں بھوکے لوگ خوراک کے حصول کے لیے نکلتے ہیں اور گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی قیادت عملی اقدامات کے بجائے صرف زبانی ہمدردی دکھا رہی ہے اور غزہ کو بھوک و افلاس کی طرف دھکیل رہی ہے۔

