لاہور: (اسد مرزا)رحیم یار خان کے کچے کے علاقے میں ایک بار پھر وہی پرانا منظر — گولیاں، دھواں، شہادتیں، اور سرکاری بیانات۔
رات گئے شیخانی پولیس پوسٹ پر درجنوں ڈاکوؤں نے یلغار کر دی۔ پولیس کے مطابق یہ حملہ اچانک تھا، لیکن مقامی افراد کہتے ہیں کہ “کچے” میں حملے کبھی اچانک نہیں ہوتے، وہ صرف حکومتی نظام کے لیے غیر متوقع ہوتے ہیں۔
حملے کے نتیجے میں ایلیٹ فورس کے پانچ اہلکار شہید ہو گئے۔ شہید اہلکاروں کے اہل خانہ کو ایک بار پھر وہی پرانی تسلیاں دی گئیں: "قوم کو آپ پر فخر ہے”، "قربانی رائیگاں نہیں جائے گی” — اور ساتھ ایک تعزیتی ٹویٹ بھی۔
ڈی پی او عرفان علی سموں بھاری نفری اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ جائے وقوعہ پر پہنچے۔ وہاں انہوں نے "فوری ناکہ بندی” کے احکامات جاری کیے، حالانکہ ڈاکو حملہ کرنے کے بعد ہمیشہ کی طرح علاقے سے "غیر موجود سمت” میں روانہ ہو چکے تھے۔
پولیس نے بھاری ہتھیاروں سے سرچ آپریشن شروع کر دیا۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ان ڈاکوؤں کے پاس بھی "بھاری ہتھیار” ہوتے ہیں — بلکہ بعض اوقات ان کی فائر پاور دیہی تھانوں سے بہتر ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان کے پاس بجٹ نہیں، مگر نیٹ ورک بہت مضبوط ہے۔
ڈی پی او عرفان علی سموں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
"ڈاکو بزدل ہیں، ان کا خاتمہ یقینی ہے، قانون سے بالاتر کوئی نہیں۔”
یہ بیان سن کر کچے کے درختوں نے بھی شاید ماضی کے سیکڑوں بیانات یاد کیے ہوں گے — جب یہی الفاظ دوسری وردی میں دوسرے افسر کہہ چکے تھے۔
کچے کا علاقہ پچھلی کئی دہائیوں سے ڈاکو کلچر، علاقائی طاقتوں، سیاسی چشم پوشی، اور ریاستی ناکامیوں کا مجموعہ بن چکا ہے۔ یہاں قانون صرف پریس ریلیز میں چلتا ہے، زمینی حقیقت میں نہیں۔
سوال یہ ہے:
کیا کچے کے ڈاکو واقعی ریاست سے خوفزدہ ہیں؟
یا صرف ریاست کو یہ خوف ہے کہ کہیں یہ سوال عوام بھی نہ پوچھ بیٹھیں؟

