لاہور (رپورٹ : اسد مرزا )پنجاب میں پولیس افسران کی کرسیوں کے پائے ایک بار پھر چرچرانے لگے ہیں۔ سنٹرل پولیس آفس پنجاب کی راہداریوں میں تبادلوں کی سرگوشیاں کسی خفیہ وائرلیس پیغام کی طرح گردش کر رہی ہیں، اور افسران اپنی وردیوں سے زیادہ فائلوں کو استری کر رہے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق، پنجاب پولیس کے دو اعلی افسران، جو آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں، محکمے میں رواں ماہ اعلیٰ سطحی تبادلوں کی تجویز دے چکے ہیں۔ کیونکہ ماتحت افسران میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ اگرچہ پنجاب پولیس میں بے چینی کوئی نئی چیز نہیں، لیکن جب یہ بے چینی سفارشوں کے ساتھ آئے تو تبادلہ بن جاتی ہے۔
تبادلوں کی ابتدا راولپنڈی ڈویژن سے ہونے جا رہی ہے، لیکن یہاں معاملہ ذرا نازک ہے۔ یہ وہی راولپنڈی ہے جہاں بعض افسران اتنے مضبوط سمجھے جاتے ہیں کہ ان کی کرسی پر برا وقت بھی دبے پاؤں آتا ہے۔سی پی او آفس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ راولپنڈی ڈویژن کے پولیس افسران کو تبدیل کرنا ایسا ہی ہے جیسے مری میں زمین خریدنے کی کوشش کرنا، ممکن تو ہے مگر دعاؤں اور تعلقات کے ساتھ۔
پنجاب کے حال ہی میں پروموشن پانے والے ایس پی سطح کے (PSP) افسران، جنہیں اب تک کسی ضلع کا ڈی پی او نہیں بنایا گیا، خاصے فکرمند ہیں۔ ان کا گلہ ہے کہ ان کے DMG گروپ کے جونئیر ساتھی عرصہ درارپہلے ڈپٹی کمشنر بن چکے ہیں، جبکہ وہ اب بھی سی وی اپڈیٹ کررہے ہیں اور نگاہیں سی پی او آفس کے دروازے پر جمائے بیٹھے ہیں۔ نہ جانے کس دن کس کو اعلیٰ کارکردگی پر تبدیل کیا جائے گا اور کون عوامی مفاد میں قربانی دے گا!
ایک ناراض ایس پی نے موبائل اسکرین پر وٹس ایپ گروپ دکھاتے ہوئے کہایار! DMG والے تو آٹھ گھنٹے کی کلاس کے بعد ڈی سی بن جاتے ہیں، ہم توکئی سال بعد بھی ایس پی ہی ہیں یہ ناانصافی نہیں، یہ روایت ہے شہرت بمقابلہ سروس ریکارڈ۔۔۔
خبر ہے کہ سنٹرل پولیس آفس پنجاب کی نئی حکمت عملی کے تحت، وہ افسران جنہوں نے کسی بھی ضلع میں دو سال بطور ایس پی انوسٹی گیشن خدمات سرانجام دی ہیں، اور جن کی شہرت مثبت ہے، انہیں چھوٹے اضلاع میں ڈی پی او تعینات کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔
یہاں مثبت شہرت کی تعریف بھی قابلِ غور ہے، کیونکہ بعض اضلاع میں عوام اور افسر کی رائے میں فرق پانچ درخواستوں جتنا ہوتا ہے ۔تبصرے بھی تبادلے کے ساتھ آتے ہیں پنجاب پولیس کے ایک ریٹائرڈ بزرگ افسر، جو اب زیادہ تر اپنا وقت سیاسی ٹاک شوز دیکھنے میں گزارتے ہیں، تبادلوں کی اس مہم پر اپنےطنزیہ ریمارکس میں یہ کہہ کر کوزے میں سمندر بند کردیا ہے کہ پنجاب پولیس میں تبادلے گنے چنے اصولوں کے تحت ہوتے ہیں۔ پہلا اصول: گنا جائے گا، دوسرا اصول: چُنا وہی جائے گا جو گنوانے والا ہو
آخر میں…پولیس افسران کی باہمی گفتگو میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا جملہ ہے کہ “کچھ نہیں ہو رہا، لیکن کچھ ہونے والا ہے۔“

