لیہہ:نیپال اور فلپائن کے بعد جنریشن زی بھارت کے شہر لداخ میں بھی متحرک ، نوجوانوں کی قیادت میں پرتشدد مظاہرے، بی جے پی کا دفتر نذر آتش۔۔بھارتی پولیس کےفائرنگ سے 5 نوجوان مارے گئے درجنوں زخمی ۔۔۔ فوج تعینات کردی گئی ۔
لداخ ک دارالحکومت لیہہ میں ہونے والی جھڑپوں میں درجنوں سیکورٹی فورسز کے اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ مظاہروں کی قیادت طلبا کررہے ہیں
احتجاجی مظاہرے کیوں ہوئے؟
گذشتہ 6 برسوں سے اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی اور بلدیاتی انتحابات کے لئے لداخ کی عوام ہزاروں پرامن مظاہرے اور مارچ کرتی چلی آرہی ہے۔ پچھلے چھ سالوں سے، مقامی شہری اداروں کی قیادت میں لداخ میں ہزاروں لوگوں نے پرامن مارچ نکالا اور بھوک ہڑتالیں کیں اور اقتدار میں اپنے حصے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھارت سے زیادہ آئینی تحفظات اور ریاست کا مطالبہ کیا جسے رد کردیا گیا۔
تاہم گذشتہ روز سماجی-مذہبی اور سیاسی تنظیموں کے اتحاد، لداخ اپیکس باڈی کی قیادت میں مقامی لداخی کارکنوں کی بھوک ہڑتال اپنے 15ویں دن میں داخل ہو گئی۔ 62 اور 71 سال کی عمر کے دو کارکنوں کی دو ہفتوں کی بھوک ہڑتال کے بعد حالت خراب ہوگئی جس پر انہیں اسپتال داخل کرانا پڑا تھا، شہریوں نے شٹر ڈاؤن کی کال دی ۔ مظاہرین مودی حکومت سے مذاکرات میں تاخیر پر ناراض بھی تھے۔
نوجوانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا نوجوانوں کی قیادت والے گروپ لیہہ میں شہداء میموریل پارک میں احتجاجی مقام سے الگ ہوگئے اور نعرے لگاتے ہوئے مقامی سرکاری دفاتر اور بی جے پی کے دفتر کی طرف بڑھے، ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں
لداخ کی نوجوان نسل کی انسپائریشن
نوجوانوں کو اس ماہ کے آغاز میں نیپال، فلپائن سری لنکا اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں ہونے والی بغاوت سے حوصلہ ملا اور انہوں نے کسی قیادت اور رہنمائی کے بغیر سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے جڑ کر خود ہی باہر نکلنے کا فیصلہ کیا یہ جنریشن زی کا انقلاب تھا جو نوجوان نسل کو سڑکوں پر نکال لایا۔
لداخ کی تاریخ کا سب سے خونی دن
احتجاج کو منظم کرنے والی تنظیم کے کوآرڈی نیٹر جگمت پالجور کا کہنا تھا کہ یہ لداخ کی تاریخ کا سب سے خونی دن ہے۔ انہوں نے ہمارے نوجوانوں کو شہید کیا – وہ عام لوگ تھے جو اپنے مطالبات کی حمایت کے لیے سڑکوں پر تھے۔
پالجور کا کہنا تھا کہ لوگ حکومت کے پانچ سال کے جھوٹے وعدوں سے تھک چکے تھے، اور لوگ غصے سے بھرے ہوئے تھے
بھارتی سرکار کا موقف
بھارت کی وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کردہ سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ "بے قابو ہجوم” کے ساتھ جھڑپوں میں 30 سے زیادہ فورسز اہلکار زخمی ہوئے ہیں – اور یہ کہ پولیس کو اپنے دفاع میں فائرنگ کا سہارا لینا پڑا جس کے نتیجے میں "کچھ ہلاکتیں” ہوئیں۔
بھارتیحکومت نے کہا کہ "یہ واضح تھا کہ ہجوم کو وانگچک نے اکسایا تھا اور نوجوانوں کو “عرب اسپرنگ کے نام پر انقلاب کی طرف مائل کیا جا رہا تھا
مظاہرین کے مطالبات
2019 میں، مودی حکومت نے یکطرفہ طور پر نیم خود مختار حیثیت اور ریاستی حیثیت کو چھین لیا جو ہندوستان کے زیر انتظام مقبوضہ کشمیر کو پہلے بھارتی آئین کے تحت حاصل تھا۔
ریاست 3 علاقوں میں تقسیم ہے- مسلم اکثریتی وادی مقبوضہ کشمیر، ہندو اکثریتی جموں اور لداخ، جہاں مسلمان اور بدھ مت کے پیروکار ہر ایک کی آبادی کا تقریباً 40 فیصد ہے۔
اس کے بعد، مودی حکومت نے سابق ریاست کو دو خطوں میں تقسیم کیا: جموں و کشمیر ایک مقننہ کے ساتھ، اور لداخ بغیر اس کے۔ جب کہ دونوں وفاق کے زیر انتظام ہیں اور نہ ہی ہندوستان کی دوسری ریاستوں کے اختیارات ہیں، جموں اور کشمیر کی مقننہ کم از کم اپنی آبادی کو مقامی لیڈروں کو منتخب کرنے کی اجازت دیتی ہے جو ان کے تحفظات کی نمائندگی کر سکیں اور انہیں نئی دہلی تک پہنچا سکیں۔
مقامی شہیروں کا کہنا ہے کہ لداخ کے پاس ایسا اختیار نہیں ہے۔ یادرہے مقبوضہ کشمیر کی مغرب میں پاکستان سے سرحدیں ملتی ہیں، اور لداخ کی مشرق میں چین کے ساتھ 1,600 کلومیٹر (994 میل) سرحد ہے۔
ریاست کے خاتمے کے بعد سے، لداخیوں نے خود کو بیوروکریٹس کی حکمرانی میں پایا ہے۔ خطے کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی درج فہرست قبائل کے طور پر درج ہے۔ اس حیثیت نے لداخ کو ہندوستانی آئین کے چھٹے شیڈول کے تحت شامل کرنے کا مطالبہ کیا، جس سےان خطوں کو خود مختار انتظامی اور گورننس ڈھانچہ فراہم کرتا ہے جہاں تسلیم شدہ مقامی کمیونٹی آبادی پر غلبہ رکھتی ہے۔ اس وقت ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں میں 10 علاقے ہیں جو شیڈول کے تحت درج ہیں۔
تاہم، مودی حکومت نے اب تک ریاست کا درجہ اور لداخ کے لیے چھٹے شیڈول کے تحفظات دونوں کی مزاحمت کی ہے۔
لداخ کے شہری نوکریوں سے محروم
جموں و کشمیر کی لداخ سے علیحدگی کا مطلب یہ ہے کہ لداخیوں کے لیے جموں اور کشمیر میں کام تلاش کرنا مشکل ہو گیا ہے، جہاں پہلے متحد خطہ میں زیادہ تر ملازمتیں تھیں۔ 2019 کے بعد سے، رہائشیوں نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ ہندوستانی حکومت نے پبلک سیکٹر کی ملازمتوں میں بھرتی کے لیے واضح پالیسیاں نہیں بنائی ہیں۔
احتجاجی نوجوانوں کے سربراہ وانگچک کا موقف
وانگچک کا کہنا تھاکہ نوجوان پانچ سالوں سے بے روزگار ہیں، اور لداخ کو آئینی تحفظات وحقوق نہیں دیے جا رہے ہیں۔
لداخ کی حیران کن شرح خواندگی
لداخ میں خواندگی کی شرح 97 فیصد ہے، جو بھارت کی قومی اوسط سے تقریباً 80 فیصد زیادہ ہے۔ لیکن 2023 کے سروے میں پتا چلا ہے کہ لداخ کے 26.5 فیصد گریجویٹس بے روزگارہیں جو ہیں – قومی اوسط سے دوگنا۔
وانگچک کون ہیں ؟
پیشے سے ایک ٹیچر وانگچک نے لداخ کے لیے آئینی تحفظات کا مطالبہ کرتے ہوئے پچھلے تین سالوں میں پانچ بھوک ہڑتالیں کی ہیں۔ وہ لداخ میں ہونے والے مظاہروں کا سب سے مشہور چہرہ بھی ہیں ۔ وانگچک کی زندگی نے بالی ووڈ کی ایک بلاک بسٹر فلم کو بھی متاثر کیا ہے جس نے چین میں مداحوں کی ریکارڈ تعداد حاصل کی ہے۔ بھوک ہڑتال کی جگہ، شہداء کی یادگار پارک بھی تین لداخیوں کے لیے وقف ہے جو اگست 1989 میں احتجاج کے دوران فائرنگ کے ایک واقعے میں مارے گئے تھے۔ اس وقت، مظاہرے متحدہ ریاست میں سمجھے جانے والے کشمیری غلبے کے بارے میں غصے پر تھے جس کا تعلق لداخ، جموں اور کشمیر سے تھا۔
لداخ اتنا اہم کیوں ہے؟
لداخ چین کی سرحد سے متصل بھارت کی ہمالیہ سرحد پر شہر ہے۔
یہ خطہ اہم پہاڑی گزرگاہوں، ہوائی اڈوں اور سپلائی کے راستوں سے بھی جڑتا ہے جو چین کے ساتھ تنازعہ کی صورت میں بھارتی فوج کے لیے اہم ہیں۔ 2020 میں، چینی دراندازی کے بعد، لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC) کے ساتھ مشرقی لداخ میں بھارتی اور چینی افواج کے درمیان جھڑپ ہوئی۔
کم از کم 20 بھارتی فورسز کے اہلکار چار چینیوں کے ساتھ ما رے گئے۔ تصادم نے دونوں طرف دسیوں ہزار فوجیوں کو متحرک کیا، بھاری ہتھیاروں اور بنیادی ڈھانچے کو اونچائی والی چوکیوں پر پہنچایا گیا۔
تب سے لداخ بھارت چین سرحدی کشیدگی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ فوجی اور سفارتی مذاکرات کے متعدد دور پچھلے سال کے آخر سے پگھلنے کا باعث بنے ہیں۔
جنریشن زی کیا ہے؟
’جنریشن زی‘ کے ساتھ کچھ بنیادی طور پر بدل گیا۔ جنریشن زی وہ نسل ہے جو انٹرنیٹ اور اس کی ایپلیکیشنز کے ساتھ پیدا ہوئی، پلی بڑھی اور پروان چڑھی۔
یہ نسل اپنی شناخت اور اپنی پوزیشنیں ڈیجیٹل جگہوں پر بنا رہی ہے جو نہ کسی چھت کو جانتے ہیں نہ کسی سرحد کو۔ یہ اپنی ۔ طور پر اپنے ہم عمروں کے ساتھ تبادلہ کرتی ہے
جنریشن زی کا بیانیہ
جنریشن زی نہ کسی حکومتی بیان کا انتظار کرتی ہے، نہ ہی روایتی اداروں، سماجی معاہدوں یا قائم شدہ درجہ بندیوں سے خوفزدہ ہے۔ بلکہ یہ اپنی رائے خود تشکیل دیتی ہے، اپنی ہی علامات اور اقدار کو اپنی ہی تعریفوں کی ہم آہنگ لہروں کے ذریعے وضع کرتی ہے، جیسے خیر و شر، صحیح و غلط۔
روایتی بیانیے کی جگہ لینے والا جنریشن زی کایک آفاقی بیانیہ ہے جو ایک ایسی نسل کو متحد کرتا ہے جو دنیا کا ایک وسیع حصہ ہے اور جو واقعات کو ایسی دوئی میں سمجھتی ہے جو بظاہر سادہ یا سطحی لگتی ہیں، جیسے خیر اور شر، جنگ اور امن، موت اور زندگی۔
جنریشن زی کا ورکنگ اسٹائل
اس نسل کی انفرادیت اس کی آزادی میں ہے، جو روایت اور روایت پرستوں کی مخالفت پر قائم ہے۔ یہ آسانی سے چلنے یا ہانکے جانے کو قبول نہیں کرتی یہ حقائق کا اپنے ذرائع اور اوزار سے تصدیق اور تقابل کرتی ہے۔ یہ اپنی لغت اور اپنی اصطلاحات استعمال کرتی ہے اور اپنے فعال اندرونی نیٹ ورکس کے ذریعے اپنی یقین دہانیاں بناتی ہے۔ جسے کہ نیپا ل کے حالیہ واقعات پہلی بار ہم ایک ایسے احتجاجی مظاہرے کو دیکھتے ہیں جس کی یہ وسعت ہو اور جو روایتی قیادت سے خالی ہو، نہ کوئی کرشماتی لیڈر، نہ کوئی منظم جماعت، نہ کوئی یونین راستہ دکھا رہی ہو۔
پھر بھی متحرک ہونے اور منظم ہونے کی صلاحیت نہایت بلند تھی، صرف ڈیجیٹل آلات کی بدولت۔ ڈسکورڈ، ٹیلیگرام اور ٹک ٹاک جیسے گروپ اور ایپلیکیشنز ایک نئے ’سیاسی ہیڈکوارٹر‘ کی طرح سامنے آئے،

