پیرس: انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہکہ پاکستان میں کروڑوں شہریوں کی بڑے پیمانے پر چينی ساختہ فائروال اور فون ٹیپنگ نظام کے ذریعے نگرانی کی جا رہی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستانی شہریوں کی یہ نگرانی چین اور مغربی ممالک سے حاصل کی گئی ٹیکنالوجی استعمال کر کے کی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایمنٹسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اسے اس رپورٹ سے متعلق حکومت پاکستان نے کسی بھی خط کا جواب نہیں دیا ہے۔ایمنسٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ لا فل انٹرسیپٹ مینیجمنٹ نظام کے ذریعے کم از کم 40 لاکھ موبائل فونز ایک ساتھ ٹیپ کیے جا سکتے ہیں، جبکہ انٹرنیٹ کے مواد کو فلٹر اور سنسر کرنے کے لیے استعمال ہونے والا ویب منیجمنٹ سسٹم 2.0 فائروال ایک مرتبہ میں 20 لاکھ انٹرنیٹ سیشنز کو بلاک کر سکتا ہے۔
یادرہے پی ٹی اے کے چیئرمین میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمان نے 21 اگست 2024 کو کہا تھا کہ ان کا محکمہ حکومت کی ہدایت پر ملک میں انٹرنیٹ فائر وال پر کام کر رہا ہے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے اجلاس میں حفیظ الرحمان نے کہا تھا کہ وفاقی حکومت نے فائر وال لگانے کا حکم دیا ہے، پی ٹی اے اس پر عمل کر رہا ہے اور فائر وال ہم چلا رہے ہیں۔
ایمنٹسی انٹرنیشنل نے تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا کہ پاکستان نگرانی اور سنسرشپ کا یہ نظام چینی، یورپی اور شمالی امریکی کمپنیوں کی مدد سے چلا رہا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سیکرٹری جنرل ایگنس کیلامارڈ نے بیان میں کہا کہ پاکستان کا ویب مانیٹرنگ سسٹم اور قانونی انٹرسیپٹ مینجمنٹ سسٹم عام شہریوں کی زندگیوں پر مسلسل نظر رکھتے ہیں۔ پاکستان میں، آپ کے ٹیکسٹ، ای میلز، کالز اور انٹرنیٹ تک رسائی سب کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔ لیکن لوگوں کو اس مسلسل نگرانی کا کوئی علم نہیں ہے۔ یہ خوفناک حقیقت انتہائی خطرناک ہے کیونکہ یہ سایے میں کام کرتی ہے، اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کو شدید طور پر محدود کرتی ہے۔
بلیو ایم ایس کا پہلا ورژن 2018 میں پاکستان میں ایک کینیڈین کمپنی سینڈوائن، جو اب ایپ لاجک نیٹ ورک کے نام سے جانی جاتی ہے، کی فراہم کردہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے نصب کیا گیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اس ڈبلیو ایم ایس کو 1.0 کہتی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تجارتی ڈیٹا میں سینڈوائن کو 2017 میں پایا اور یہ معلوم ہوا کہ اس نے کم از کم تین پاکستانی کمپنیوں کو، جن کی حکومت پاکستان کے لیے کام کرنے کی تاریخ ہے، سامان بھیجا تھا، جیسے کہ ان باکس ٹیکنالوجیز۔ تحقیق کے دوران ایمنسٹی انٹرنیشنل نے دو دیگر کمپنیوں ایس این سکائیز اور اے ہیمسن کا بھی پتہ لگایا۔
ایک لیک کے ذریعے جو کہ تعاون کرنے والوں کے ساتھ شیئر کی گئی اور جسے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے Geedge ڈیٹا سیٹ کا نام دیا، یہ پتہ چلا کہ ڈبلیو ایم ایس 1.0 کو 2023 میں چین کی Geedge Networks کی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے تبدیل کیا گیا تھا۔ یہ ورژن ڈبلیو ایم ایس 2.0 ہے۔تنظیم کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈبلیو ایم ایس 2.0 کی تنصیب اور عملی شکل دینا دو دیگر کمپنیوں: امریکہ کی نیاگرا نیٹ ورکس اور فرانس کی تھیلز کے فراہم کردہ سافٹ ویئر یا ہارڈ ویئر کے ذریعے ممکن ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا ماننا ہے کہ Geedge Networks کی فراہم کردہ ٹیکنالوجی چین کی ’عظیم فائر وال‘ کا ایک تجارتی ورژن ہے، جو کہ چین میں تیار کردہ اور نافذ کردہ ایک جامع ریاستی سنسرشپ کا ٹول ہے جو اب دیگر ممالک کو بھی برآمد کیا جا رہا ہے۔

