اسد مرزا سے :
لاہور کی فضا میں امید کی مہک ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے بقول، اب خواتین بلا خوف زیور پہنیں، نقدی سنبھالیں، اور دل کھول کر پنجاب کی گلیوں میں "سیلفی موڈ” میں پھریں۔ مگر سوال یہ ہے کہ آیا گوگل میپ پر "محفوظ پنجاب” کا آپشن صرف ماڈل ٹاؤن، گلبرگ اور ڈیفنس کے لیے دستیاب ہے — یا واقعی پورے پنجاب میں یہ سروس آن ہو چکی ہے؟
یہ خبر ہے، یا کوئی پرانا ڈرامہ — فیصلہ آپ کی عقل کرے۔ مقام: چوہنگ، شاہ پور کانجراں — وہی لاہور، جو سیف سٹی کیمرے، فل یسکریپٹ بیانیوں، اور “عوام دوست پولیسنگ” کے دعووں سے بھرا پڑا ہے۔
ایک 35 سالہ نوجوان عباس، جسے پیار میں گرفتار بیوی کو منانے کی غلطی مہنگی پڑی۔ 18 سالہ کنزہ، جو روٹھ کر میکے گئی تھی، واپس آئی تو شوہر نے کہا: "چلو دریا کنارے چلتے ہیں، جہاں فضا محفوظ ہے اور فضا میں اعتماد کی خوشبو۔”
لیکن وہ بھول گیا کہ “پنجاب سیف ہے” ایک نعرہ ہے، نیویگیشن پوائنٹ نہیں۔
دریا کے پاس کھیتوں میں، تین نامعلوم افراد جن کے پاس کلہاڑیاں تھیں (یعنی یقیناً پنجاب کے دیسی ٹارزن)، عباس کو مشورہ دینے لگے کہ وہ لڑکی “بھگا کر لایا ہے”۔ عباس کی وضاحت پر کہ “یہ میری بیوی ہے، نکاح نامہ ہے”، اُنہوں نے جواباً قانونی تقاضا پورا کیا — یعنی بیوی کو اٹھا کر لے گئے اور زیادتی کا نشانہ بنایا۔
بعد ازاں، ایک اور شریکِ ظلم کو فون کال پر بلایا گیا — پنجاب میں اب جرم کی ڈیلیوری سروس بھی آن لائن چلتی ہے۔ کنزہ دوسری بار درندگی کا نشانہ بنی۔
اور یوں، “محفوظ پنجاب” کی خوبصورت پینٹنگ پر ایک اور خون آلود دھبہ لگ گیا۔ واقعہ کی اطلاع پر پولیس حرکت میں آئی — کچھ دیر بعد چوہنگ پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر شواہد حاصل کئے اور سی سی ڈی نے ایک “مرکزی ملزم” کو مقابلے میں مار دیا۔
"ملزم مارا گیا، باقی جلد گرفتار ہوں گے، انصاف ہو گا”۔جی ہاں، انصاف ہو گا — جیسا پچھلے ہزار کیسز میں “ہو چکا” ہے۔
اب وزیر اعلیٰ صاحبہ سے ایک چھوٹی سی گزارش:
کیا پنجاب کی سیکیورٹی پالیسی پاور پوائنٹ سے نکال کر پولیس پٹرولنگ میں بھی منتقل کی جا سکتی ہے؟
یا محفوظ پنجاب کا خواب صرف جلسوں میں سنا جا سکتا ہے، کھیتوں میں نہیں؟

