اسلام آباد :پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے آزاد کشمیر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا ہے۔چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کل نئے وزیراعظم کا اعلان کریں گے۔ ذرائع کے مطابق چوہدری لطیف اکبر اور چوہدری یاسین مضبوط امیدواروں میں شامل ہیں۔
صدر مملکت آصف علی زرداری سے حکومتی کمیٹی برائے کشمیر امور کی اسلام آباد میں ملاقات ہوئی، جس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور آزاد کشمیر کے سینئر رہنما موجود تھے، اہم ملاقات میں آزاد کشمیر کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال اور اِن ہاؤس تبدیلی پر غور کیا گیا۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما احسن اقبال نے کہا کہ ہماری جماعت نے آزاد کشمیر حکومت کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے، ہم اپوزیشن میں بیٹھیں گے اور عدم اعتماد کی تحریک میں پیپلزپارٹی کا ساتھ دیں گے، اس حوالے سے صدرِ مملکت آصف علی زرداری کو بھی اعتماد میں لے لیا ہے۔
احسن اقبال نےمزید کہا کہ ن لیگ کا مؤقف ہے کہ موجودہ آزاد کشمیر حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ’مکمل طور پر ناکام‘ رہی اور یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتوں کو ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دینا پڑی، جو کشمیر گئی اور بحران کی صورتحال حل کرنے کے لیے بات چیت کی۔
انہوں نے کہا کہ پورے معاملے میں واضح طور پر یہ سامنے آیا کہ موجودہ سیٹ اپ عوامی توقعات اور کشمیری عوام سے بہتر حکمرانی اور خوشحالی کے وعدوں پر پورا نہیں اُترا، لہٰذا، اس صورتحال میں تبدیلی ناگزیر اور یہ تبدیلی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے لائی جائے گی۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی رہنما قمر زمان کائرہ نےکہا کہ موجودہ آزاد کشمیر حکومت، مسائل حل کرنے کے بجائے مسائل کا باعث بن گئی ہے، 2 مرتبہ ایسے بحران پیدا ہوئے کہ وفاقی حکومت کو مداخلت کر کے انہیں حل کرنا پڑا، اب اتفاقِ رائے پیدا ہو گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی، جس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اکٹھے ہوں گے۔
رہنما پیپلز پارٹی نے مزید کہا کہ آزاد کشمیر کے عوام کو بہتر طرزِ حکمرانی، سیاسی استحکام، مسائل کا حل اور شفاف و منصفانہ انتخابات فراہم کیے جانے چاہیں تاکہ علاقے کے حقیقی نمائندے منتخب ہو کر اپنی حکومت بنا سکیں، تحریک عدم اعتماد کی تحریک کے وقت کا تعین وزیرِ اعظم سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔
لیگی رہنما رانا ثنا اللہ نے بھی موجودہ آزاد کشمیر حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی، جس کی وجہ سے سیاسی خلا پیدا ہوا اور مزید مسائل نے جنم لیا۔

