تحریر:اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
پنجاب کی فضا آج کل بڑی عجیب ہے۔ اب دشمن ڈھونڈنے کے لیے باہر جانے کی ضرورت نہیں، محفل میں بیٹھا قریبی دوست ہی کافی ہے۔ وہ دور گیا جب دوست قربانی دیا کرتے تھے، اب تو قربانی کے جانور کی قیمت لگتی ہے اور دوست ہی چھری تیز کرتے ہیں۔
امیر بالاج ٹیپو کی کہانی اس کی زندہ مثال ہے، جسے اس کا اپنا دوست احسن شاہ انجام تک لے گیا۔ یہ وہی لمحہ ہے جب دل چاہتا ہے کہ پرانے قصے دہرا کر کہا جائے: "دوستوں سے ڈرنا شروع کرو، دشمنوں سے نہیں۔”
جب بھی سی سی ڈی والے ڈاکوؤں کے ساتھ مقابلے کے لیے نکلتے ہیں تو منظر کچھ یوں بنتا ہے جیسے کوئی فلم ہو—ہیرو، ولن اور بیچ میں ریکوری کا سین۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب "ریکوری مشن” ہوتا ہے تو ڈاکوؤں کے ساتھی بھی اچانک وارد ہو جاتے ہیں اور فائرنگ شروع کر دیتے ہیں۔ اب فائر ان کے اپنے ہی ساتھیوں کو لگتے ہیں اور پولیس حراست میں ڈاکو ہلاک ہو جاتے ہیں جبکہ باقی ساتھی کامیابی سے فرار ہو جاتے ہیں۔
اب ذرا سوچیں: سوا دو لاکھ نفری پر مشتمل پنجاب پولیس کچھ نہیں کر پائی، لیکن صرف ساڑھے تین ہزار سی سی ڈی والوں نے یہ 70 فیصد جرائم ختم کر دیے۔ سبحان اللہ! اگر یہی حال رہا تو پر پولیس اسٹیشن سے ایک ہی آواز آئے گی ”بھانڈے قلعی کرا لو“۔


