تحریر: اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
اسلامی ملک میں یہ سوال بڑا "کافرانہ” لگتا ہے کہ مسجد کو مفت بجلی کیوں نہیں دی جاتی؟
حکمران طبقے کا فرمان ہے: "قومی خزانہ سب کا ہے، مسجد کو مفت بجلی نہیں مل سکتی۔” مگر وہی قومی خزانہ جب افسر شاہی کے بنگلوں، فارم ہاؤسز اور اے سی والے کمروں پر خرچ ہو تو پھر یہ قومی خدمت بن جاتی ہے۔ سبحان اللہ،
کیا فقہ ہے، کیا اجتہاد ہے!
قاعدہ قانون تو یہ ہے کہ گریڈ 16 اور اس سے نیچے کا افسر اے سی چلانے کا مجاز نہیں۔ لیکن ہمارے ہاں حالت یہ ہے کہ ہر تھانے میں کم ازکم پانچ سے چھ اے سی نصب ہیں۔ کلرکوں کے کمروں میں بھی اے سی چل رہے ہیں۔ ڈی ایس پی، اے ایس پی کے دفاتر تو خیر "فریج” لگتے ہیں۔ اور بل؟ جناب، بل ادا کرنا تو غریب کا کام ہے۔ یہاں تو 99 فیصد بجلی ڈائریکٹ استعمال ہوتی ہے۔
اگر کوئی غریب اپنی جھگی میں کنڈا ڈال لے تو پولیس اس کو دھر لے جاتی ہے، مقدمہ درج ہوتا ہے، عدالت چکر لگواتی ہے۔ لیکن وہی پولیس اسٹیشن جو بجلی چوری کے مقدمات درج کرتا ہے، خود بجلی کے سب سے بڑے ڈاکو ہیں۔ مطلب، جس کمرے میں بجلی چوری کے کیس کی ایف آئی آر درج ہوتی ہے، وہی کمرہ "چوری شدہ بجلی” سے ٹھنڈا ہوتا ہے۔ تو حضور! سوال یہ ہے کہ مسجد کے پنکھے اگر نمازیوں کے چندے سے چلنے چاہئیں تو افسر شاہی کے اے سی کس کے چندے سے چل رہے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ عوام کے خون پسینے کے بلوں سے وہی بجلی مفت فراہم ہو رہی ہے؟ اسلامی فلاحی ریاست کا اصل چہرہ یہی ہے کہ مسجد میں پنکھا چلانے پر بحث چھڑتی ہے لیکن افسر شاہی کے اے سی چلانے پر سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ ایک طرف اللہ کا گھر، جہاں بندے گرمی میں پسینے سے تر ہوتے ہیں؛ دوسری طرف سرکار کا گھر، جہاں افسر پسینے سے بچنے کے لیے عوام کو لوٹتے ہیں۔
اب حکومت کو نیا فارمولا نکالنا چاہیے. مسجد کے پنکھے کے لیے چندہ + دعا ,,عوام کے کمرے کے لیے بل + جرمانہ ,,افسر شاہی کے لیے ڈائریکٹ لائن + فری اے سی
یہ ہے اصل "طاقت کا نظام”۔ یہاں بجلی بھی طبقاتی تقسیم کی نذر ہے۔ مسجد کو نہیں، مگر افسر شاہی کو لازمی "نور” میسر آتا ہے۔ جب تک مسجد کا پنکھا بل دے گا اور افسر شاہی کا اے سی مفت چلے گا، تب تک یہ ملک اندھیروں میں ہی رہے گا — چاہے بل جتنے مرضی ادا کریں۔


