تحریر: اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
گنڈا سنگھ والا، یہ وہ مقام ہے جہاں پاکستان اور بھارت کی سرحد ایک دوسرے کو چھوتی ہے۔ عام دنوں میں یہاں کے لوگ کھیتوں میں ہل چلاتے ہیں، مویشی پالتے ہیں، بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں اور اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں مگن رہتے ہیں۔ لیکن جب دریائے ستلج کا پانی بے قابو ہو کر ان کھیتوں میں اترتا ہے تو سرحدی لکیر مٹ جاتی ہے، بس دکھ اور بے بسی کا سیلاب دونوں طرف یکساں بہنے لگتا ہے۔
انسان اور پانی کی جنگ سیلابی پانی جب گھروں کے صحنوں میں داخل ہوتا ہے تو کسان کی برسوں کی محنت ایک لمحے میں بہہ جاتی ہے۔ پکی کھڑی فصلیں، گھاس کے ڈھیر، چارے کے ذخیرے اور مویشی سب خطرے میں آ جاتے ہیں۔ وہ کسان جس کے خواب زمین کی زرخیزی سے جڑے ہوتے ہیں، پانی کے اس طوفان کے آگے خود کو بے بس پاتا ہے۔ نہ اپنی محنت بچا پاتا ہے اور نہ اپنے خواب۔
سرحد اور سیاست یہ المیہ ہے کہ بارڈر کے قریب رہنے والے کسان ہمیشہ دوہری مشکلات سہتے ہیں۔ ایک طرف سیلاب کا عذاب اور دوسری طرف امداد میں تاخیر۔ دونوں ملکوں کی انتظامیہ اپنی اپنی حدود کے دائرے میں بندھی ہوتی ہے، اور اس بندھن میں مقامی دیہاتی اکثر پس جاتے ہیں۔ سرحد کے بیچ کھڑی خاردار تار ان کے مسائل کا حل نہیں، بلکہ ان کی تکلیف میں اضافہ کرتی ہے۔وقت کی پکاریہ لمحہ سوچنے کا ہے کہ جب پانی کے ریلے کو نہ مذہب کی پروا ہوتی ہے نہ سرحد کی، تو پھر ہم کیوں انسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے؟ کیا یہ بہتر نہ ہو کہ پاکستان اور بھارت سیلاب جیسی آفات کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل بنائیں؟ وارننگ سسٹم سے لے کر ریلیف کیمپوں تک، اگر تعاون ہو تو ہزاروں جانیں اور لاکھوں خواب بچائے جا سکتے ہیں۔


