تحریر : اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
پنجاب کی سیاست ایک ایسی انوکھی بستی ہے جہاں اقتدار کے بڑے بڑے مینار کھڑے ہیں مگر ان کے سائے میں چھپے "دفاتر” اصل میں غنڈوں کے آستانے نکلتے ہیں۔ ان دفاتر میں نہ تو عوامی خدمت کی بو آتی ہے نہ ہی سیاسی بصیرت کی خوشبو، بس ہتھیاروں کی چمک، قبضہ گروپوں کی کھنک اور اشتہاریوں کی رونق ملتی ہے۔
حالیہ دنوں کی خبر یہ ہے کہ صوبائی درالحکومت کے قریب ایک ضلع میں سیاسی شخصیات نے اپنے ہی پالتو بدمعاشوں کو کہا ہے کہ بھائی ذرا ڈیرے سے دور رہا کرو، کیونکہ سی سی ڈی کا افسر آیا ہے اور "یہ افسر کسی کی سنتا نہیں”۔ اب عوام کے لیے یہ کسی خوشی کا پیغام کم نہیں کہ ایک افسر کی سختی کے ڈر سے وہی بدمعاش جو کل تک پورے ضلع کو یرغمال بنائے بیٹھے تھے، آج اپنے ڈیروں سے بیدخل کیے جا رہے ہیں۔ گویا "قانون” کے خوف نے پہلی بار "نوٹ اور ووٹ” سے طاقتور ان سیاسی ٹھیکیداروں کو بھی مجبور کر دیا کہ اپنی ہی چھاؤں میں پلنے والے سانپ کو باہر پھینک دیں۔
اصل طنز تو یہ ہے کہ وہ مجرم، جنہیں پولیس کی ہتھکڑی کبھی نہ روک سکی، آج اپنے ہی سرپرستوں کے حکم پر در بدر ہو رہے ہیں۔ اور وہ سیاسی وڈیرے، جو کل تک فخر سے کہتے تھے کہ "ہمارے لوگ ہر جگہ موجود ہیں”، آج لرزتے لبوں سے اپنے "لوگوں” کو نصیحت فرما رہے ہیں کہ خبردار! اگر پکڑے گئے تو ذمہ دار خود ہوں گے۔
یہ کہانی صرف ایک ضلع کی نہیں، پورے پنجاب کے بیشتر اضلاع میں یہی ڈیرے ہیں، یہی غنڈے ہیں، اور یہی "سیاسی پناہ گاہیں”۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کہیں پولیس خاموش تماشائی ہے اور کہیں کوئی افسر اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر اصل کردار ادا کرتا ہے۔
سچ یہ ہے کہ عوام اب یہ تماشا دیکھ کر خوش بھی ہیں اور حیران بھی۔ خوش اس لیے کہ شاید پہلی بار انہیں لگ رہا ہے کہ قانون کا خوف زندہ ہے۔ حیران اس لیے کہ جنہیں حکومت کا سایہ حاصل ہے، وہی ایک افسر سے یوں ڈرے بیٹھے ہیں جیسے مجرم قاضی کے سامنے کھڑا ہو۔
بس سوال یہ ہے: اگر ایک افسر کی موجودگی میں بدمعاشی کا یہ حال ہے، تو پھر پورے نظام کو سدھارنے کے لیے کتنے ایسے افسروں کی ضرورت ہے؟ اور کیا یہ افسر کل بھی ویسے ہی آزاد ہوں گے، یا پھر سیاسی ڈیروں کے سائے انہیں بھی نگل جائیں گے؟


