تحریر: اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
کہا جاتا ہے کہ پنجاب حکومت نے صحت کے شعبے پر سب سے زیادہ بجٹ رکھا ہے۔
عوام:”جناب، وہ بجٹ کہاں ہے؟” حکمران:“کاغذوں میں!“
عوام:“ہسپتال میں دوائی کہاں ہے؟“حکمران: “پرائیویٹ فارمیسی میں!“
عوام:“ایکس رے مشین کب چلے گی؟“حکمران:“پریس کانفرنس کے دن!“
پنجاب کے سرکاری ہسپتال ایسے ہیں جیسے تھیٹر کی اسکرپٹ ہو: مریض کردار ڈھونڈ رہا ہے، ڈاکٹر مکالمہ بھول چکا ہے اور دوائی پردے کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ لیکن رسید ضرور لینی ہے تاکہ اگلی تقریر میں کہا جا سکے کہ عوام خوشحال ہیں۔
اب ذرا معیشت کا حال بھی سن لیجیے۔
عوام: “فیکٹریاں بند کیوں ہیں؟“حکمران: “کیونکہ ہم صنعتی ترقی کی راہ پر ہیں!“
عوام:“کھیت خالی کیوں ہیں؟“حکمران:“کیونکہ ہم زرعی انقلاب لا رہے ہیں!“
عوام: "روزگار کہاں ہے؟“حکمران:“پاسپورٹ آفس میں!“
فیصل آباد کے پاور لومز خاموش ہیں، لاہور کی فیکٹریاں قبرستان کا منظر پیش کر رہی ہیں اور دیہات میں سبزیاں نہیں، فکر اگ رہی ہے۔ نوجوان یا تو ڈنکی لگا کر سمندر میں قسمت آزماتے ہیں یا پاسپورٹ آفس میں ایسے لائن لگاتے ہیں جیسے ٹکٹ کے بغیر ملک چھوڑنے کا نیا ڈرامہ شروع ہونے والا ہو۔
لگتا ہے پنجاب کا نیا نعرہ یہی ہے:روزگار دینا مشکل ہے، پاسپورٹ دینا آسان ہے!
دیہات کے کسان کی حالت یہ ہے کہ کھیت میں فصل کم اور قرض زیادہ اگتا ہے۔
کسان:“دوائی مہنگی ہے!“حکمران:“تو دعا مانگ لو۔“
کسان:“کھاد نہیں ملتی!“حکمران:“تو تقریر سن لو۔“
کسان:“امید کہاں سے لاؤں؟“حکمران:“نئے نعرے سے!“
لیکن صاحبو، حکمرانوں کی دنیا کچھ اور ہے۔ وہ کہتے ہیں: ہم نے عوام کی خدمت کی ہے۔
“عوام کس طرح؟“حکمران:“چالان سے!“عوام:“اور؟“حکمران:“ٹیکس سے!“
عوام: "اور؟“حکمران:“جرمانے سے!“عوام:“یعنی جیب خالی کر کے خدمت!“حکمران: “جی بالکل، یہی اصل خدمت ہے۔“
ان کا فلسفہ صاف ہے: عوام کی جیب کو کھینچو، خزانے کو بھرو، پھر ترقی کا راگ الاپو۔لیکن سوال وہی ہے: کب تک؟ کب تک پنجاب کے عوام کو قربانی کا جانور سمجھا جائے گا؟ کب تک تقریروں میں دودھ کی نہریں بہیں گی جبکہ حقیقت میں نلکوں سے پانی بھی میسر نہ ہوگا؟محترمو، اب عوام نعرے نہیں، حساب مانگ رہے ہیں۔ اور جب عوام حساب مانگتے ہیں تو صرف بجٹ کی فائلیں نہیں، حکمرانوں کی نیندیں بھی الٹ جاتی ہیں۔


