تحریر :عامر ذوالفقار خان، سابق آئی جی پنجاب
جہاں لفظ بے نقاب ہوں، وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
لاہور کی ایک یونیورسٹی میں میرے لیکچر کے دوران ایک نوجوان نے سوال کیا:
“سر، کیا وراثت (Legacy) کی کوئی اہمیت ہے؟”
ہال میں سناٹا چھا گیا۔ لگ بھگ پانچ سو طلبہ کی نظریں میرے جواب پر جمی تھیں۔ سوال محض ایک طالب علم کا نہیں تھا، یہ نئی نسل کے ذہنی سفر کی عکاسی تھی۔ شاید سوشل میڈیا نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ سب کچھ صرف "ابھی” ہے اور جانے کے بعد کسی کے ذکر کی پروا ضروری نہیں۔ مگر یہ سوال انسان کی صدیوں پرانی جستجو کا حصہ ہے۔
وراثت کی حقیقت
میرے نزدیک وراثت یہ ہے کہ آپ کے جانے کے بعد لوگ آپ کو کیسے یاد کرتے ہیں۔ کیا آپ کے ذکر پر دعا نکلتی ہے یا بددعا؟ اصل امتحان یہی ہے۔
تحقیق بتاتی ہے کہ زمین پر اب تک تقریباً 117 ارب انسان آئے، مگر ان میں سے محض چند ہزار یا زیادہ سے زیادہ ایک ملین افراد نے تاریخ پر گہرا اثر ڈالا۔ یہ شرح صرف 0.085 فیصد بنتی ہے۔
ان میں سب سے نمایاں مذہبی شخصیات ہیں: حضرت آدمؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور سب سے بڑھ کر ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ۔ ان کے بعد فاتحین کا تذکرہ ملتا ہے—سکندر اعظم، چنگیز خان، تیمور، جولیس سیزر وغیرہ۔ کچھ کو عادل کہا گیا، کچھ کو ظالم۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ فاتحین کے نام اور مقبرے وقت کی بے رحمی میں مٹ گئے، جبکہ انبیاء اور عظیم رہنماؤں کے پیغام آج بھی زندہ ہیں۔
کیوں ضروری ہے یاد رہنا؟
سادہ جواب یہ ہے کہ ہم سب چاہتے ہیں کہ اچھے لفظوں میں یاد رکھے جائیں۔ مشکل جواب یہ ہے کہ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو آخرت کے منکر ہیں، اچھی یاد چھوڑنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ یہ انسان کی فطری خواہش ہے کہ اُس کی زندگی کا کوئی مقصد اور معنی ہو۔
لیکن افسوس کہ آج دنیا میں ایسے لوگ کم ہیں جنہیں حقیقی معنوں میں "آئیکون” کہا جا سکے۔ میں نے اپنی زندگی میں کئی "فرعون” دیکھے جن کی موت پر غم کے بجائے خوشی منائی گئی۔ ان کی قبروں پر دعاؤں کے بجائے نفرت کے نعرے لکھے گئے۔ قبر نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ بادشاہ اور فقیر کے جسم گلنے سڑنے میں کوئی فرق نہیں۔
ایدھی صاحب کی وراثت
عبدالستار ایدھی صاحب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ یہ سب کیسے کر لیتے ہیں؟ جواب سادہ تھا: "زندگی اللہ کی نعمت ہے اور ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ سب سے بڑی ذمہ داری انسانوں کی خدمت ہے۔”
ایدھی صاحب کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ اصل وراثت دولت یا طاقت نہیں بلکہ خدمت اور محبت ہے۔
فیصلہ آپ کا ہے
کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو قائداعظم، علامہ اقبال، نیلسن منڈیلا، مدر ٹریسا اور ایدھی جیسے لوگوں کی طرح یاد کیا جائے؟ یا اُن کرداروں کی طرح جو اخلاقیات کو صرف دکھاوے کے طور پر استعمال کرتے ہیں؟
اگر آپ کا جواب پہلی فہرست والوں جیسا ہے تو ہاں، وراثت اہم ہے۔ اگر دوسروں جیسا ہے تو پھر نہیں۔
عمل کا نتیجہ
یاد رکھیں، نیکی کا بدلہ نیکی ہے۔ وہ دعائیں جو لوگ صرف اس لیے کرتے ہیں کہ آپ نے اُن کے ساتھ بھلائی کی، براہِ راست اللہ تک پہنچتی ہیں۔ غرور اور تکبر کے ساتھ دوسروں کو تکلیف دینا ایک "چھوٹے فرعون” کی طرح ہے جس کا حساب اکثر اسی دنیا میں چکانا پڑتا ہے۔
یونانی رہنما پریکلیز نے کہا تھا:
"اصل وراثت پتھر کی یادگاروں پر نہیں لکھی جاتی، بلکہ دوسروں کی زندگیوں میں بُنی جاتی ہے۔”
لہٰذا وراثت چھوڑنا ایسے ہی ہے جیسے آپ بیج بوتے ہیں، ایسے باغ میں جسے آپ خود نہیں دیکھ سکیں گے۔ اور یہی انسان کی اصل کامیابی ہے۔


