غزہ شہر پر بڑے حملے کی تیاری اسرائیل ہزاروں ریزرو فوجی طلب کرلیا۔ غزہ کا محاصرہ، قریبی بستیوں پر قبضہ مکمل۔۔۔ بے بس فلسطینیوں نے نقل مکانی شروع کردی ۔
وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کا کہنا ہے غزہ شہر حماس کا آخری گڑھ ہے۔ اس آپریشن میں 60,000 اضافی ریزرو فوجیوں کو شامل کیا جائے گا اور 20,000 دیگر فوجیوں کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی جائے گی۔
اس منصوبے پر بین الاقوامی اور اندرونی سطح پر شدید تنقید ہو رہی ہے کیونکہ خدشہ ہے کہ اس سے غزہ میں جاری انسانی بحران اور بھوک کا مسئلہ مزید بگڑ جائے گا۔ اس کے علاوہ، کہا جا رہا ہے کہ اس فوجی کارروائی سے باقی بچ جانے والے یرغمالیوں کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اسرائیلی فوج (IDF) کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ایفی ڈیفرین نے بتایا کہ فوج پہلے ہی غزہ شہر کے مضافات میں پہنچ چکی ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل معصوم شہریوں کے خلاف اس بے رحم جنگ کو جاری رکھنا چاہتا ہے اور اس لیے وہ جنگ بندی میں رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے۔
دنیا کا ردعمل
برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے اسرائیل کے اس اقدام کو ’غلط‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مزید خونریزی کا باعث بنے گا۔
جرمن چانسلر فریڈرک مرٹز نے کہا کہ ان کی حکومت اب اسرائیل کو ایسے ہتھیار بھیجنے کی اجازت نہیں دے گی جو غزہ میں استعمال ہو سکیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے اس اقدام کو ’مجرمانہ‘ قرار دیا ہے۔
ترکی کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اسرائیل کا مقصد ’فلسطینیوں کو ان کی اپنی زمینوں سے زبردستی بے گھر کرنا‘ ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ٹکر نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ اب ختم ہونی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ یہ بڑے پیمانے پر مزید زبردستی نقل مکانی، مزید ہلاکتوں، ناقابل برداشت مصائب، تباہی اور مظالم کا باعث بنے گا۔
یرغمال خاندانوں کے فورم نے کہا کہ یہ فیصلہ ’ہمیں یرغمالیوں اور ہمارے فوجیوں دونوں کے لیے ایک بڑی تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔‘
تاہم امریکی ردعمل بہت کم تنقیدی رہا۔ اسرائیل میں امریکی سفیر مائیک ہکابی نے کہا کہ یہ منصوبہ امریکہ کے لیے تشویش کا باعث نہیں

