تحریر اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
فیصل آباد میں ایک ایسی کہانی جنم لے چکی ہے جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ ہماری عدالتوں، پولیس تھانوں اور محبت کے فسانے سب ایک ہی اسکرپٹ رائٹر کے قلم سے لکھے جاتے ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ یہ کہانی عدالت میں نہیں بلکہ سڑک پر پیش ہوئی۔
ہوا یوں کہ ایک خاتون، ساجدہ بی بی، نے اپنے سابق آشنا ٹریفک وارڈن احسن کی آنکھوں میں مرچیں ڈالیں، رقم اور کاغذات چھینے، اور چلتی بنی۔ وارڈن صاحب بے چارے رہ گئے آنکھیں ملتے، پولیس کو منتیں کرتے کہ "بس ایف آئی آر لکھ دو، ورنہ یہ عشق مجھے نوکری سے بھی محروم کر دے گا!”
اصل مسئلہ یہ ہے کہ پانچ سالہ "رومانس کا سگنل” جب شادی کے چوراہے پر پہنچا تو وارڈن صاحب نے ریڈ سگنل توڑنے کے بجائے بریک لگا دی۔ ساجدہ بی بی نے دو سال پہلے خاتون ایس پی کو درخواست دی تھی مگر شاید یہ بھی پولیس کے کاغذی انصاف میں دب کر رہ گئی، جیسے باقی سب کی فائلیں "پیپر ویٹ” کے نیچے دب جاتی ہیں۔
اب ذرا پولیس کے کردار پر غور کریں۔ مرچیں کس نے ڈالیں، سی سی ٹی وی کس نے دیکھی، حقیقت کس نے جانی؟ سب کچھ سامنے تھا۔ مگر انصاف کی آنکھوں پر پٹی نہیں تھی، مرچیں تھیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جھوٹی ایف آئی آر درج ہوئی، اور پولیس نے کمال مہارت سے مظلوم کو مجرم اور مجرم کو مظلوم بنا دیا۔
یہ کہانی فیصل آباد کی نہیں، پورے پاکستان کی ہے۔ یہاں وارڈن ہو یا سیاستدان، مرچیں ہمیشہ عوام کی آنکھوں میں پڑتی ہیں۔ اور جب عوام حقیقت دیکھنا چاہتے ہیں تو پولیس اور ادارے ان کی آنکھوں پر نئی ایف آئی آر کی پٹی باندھ دیتے ہیں۔
لیکن یہاں ایک سلیوٹ کرنا بنتا ہے ساجدہ بی بی کو جس کو انصاف ایس پی کے دفتر سے لے کر کچہری تک جب نہیں ملا نہیں تو اس نےایک آرڈر اپنے ضمیر سے پاس کرایااور اس پر خود تن تنہا ہنستے کھیلتے عمل درآمد بھی کرڈالا، کہتے ہیں کہ تنگ آمد بجنگ آمد۔۔ کسی کے صبر کا امتحان بہت دیر تک نہیں لینا چاہئیے ۔ نہیں تو کبھی کبھی الٹے بانس بریلی کو بھی پہنچ سکتے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے:
اگر عشق جرم ہے تو ایف آئی آر محبت نامے پر کیوں نہیں لکھی جاتی؟
اگر مرچیں ڈالنا گناہ ہے تو انصاف کی آنکھوں میں دہائیوں سے جو مرچیں پڑی ہیں، ان کا حساب کون دے گا؟ اور اگر پولیس ہی مظلوم اور ظالم کا فیصلہ کرے گی تو عدالتوں کو تالے کیوں نہیں لگا دیے جاتے؟
فیصل آباد کی اس کہانی کا انجام تو شاید کبھی نہ ہو، لیکن عوام نے ایک نیا سبق سیکھ لیا ہے:
مملکت خداداد میں انصاف ملے نہ ملے، مرچیں ضرور ملتی ہیں۔






