غزہ: فلسطینی تنظیم حماس نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی ایک نئی تجویز پر رضامندی ظاہر کر دی ہے، جس سے طویل عرصے سے جاری اس تنازعے کے خاتمے کی امیدیں پیدا ہو گئی ہیں۔ حماس کے اس اعلان کے بعد بھی، اس معاہدے کی حتمی شرائط اور تفصیلات ابھی تک مکمل طور پر واضح نہیں ہیں۔
مصر اور قطر کی ثالثی میں تیار کی گئی اس تجویز کے بارے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں کئی مراحل شامل ہیں، جن میں درج ذیل نکات نمایاں ہیں:
- پہلا مرحلہ: دونوں فریقین کی جانب سے 60 دن تک فوجی کارروائیاں معطل رہیں گی۔
- قیدیوں کا تبادلہ: اس معاہدے کا ایک اہم حصہ قیدیوں کا مرحلہ وار تبادلہ ہے۔ ابتدائی مرحلے میں حماس مبینہ طور پر 10 زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے گی اور 18 ہلاک ہونے والے یرغمالیوں کی لاشیں واپس کرے گی۔ اس کے بدلے میں اسرائیل کی جانب سے بھی فلسطینی قیدیوں کی ایک نامعلوم تعداد کو رہا کیا جائے گا۔
- مستقل جنگ بندی کے مذاکرات: 60 دن کی جنگ بندی کو ایک فریم ورک کے طور پر استعمال کیا جائے گا تاکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے ذریعے جنگ کے مستقل خاتمے کے لیے ایک معاہدہ کیا جا سکے۔
- انسانی امداد: اس معاہدے میں غزہ کے لیے انسانی امداد اور ایندھن کی فراہمی میں اضافہ، بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی واپسی، اور غزہ کی تعمیر نو کے لیے ایک طویل مدتی منصوبے کی شقیں بھی شامل ہیں۔
حماس کے ایک عہدیدار نے تصدیق کی ہے کہ تنظیم نے اس تجویز کو بغیر کسی ترمیم کے قبول کر لیا ہے۔ تاہم، اسرائیل نے تاحال اس پر کوئی باضابطہ ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ کچھ اسرائیلی حکام نے اس پیشکش پر شکوک کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حماس کی کمزوری کی علامت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کئی ماہ سے جاری مذاکرات ناکام ہو چکے تھے، اور اسرائیل کی جانب سے غزہ میں زمینی حملے کی تیاریوں کی اطلاعات بھی تھیں۔ غزہ میں انسانی صورتحال انتہائی خراب ہے اور امدادی ایجنسیاں بڑے پیمانے پر قحط کا انتباہ جاری کر چکی ہیں۔

