رپورٹ: اسدمرزا
"جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے”
کارل مارکس نے کہا تھا:
"ہر شخص سے اُس کی اہلیت کے مطابق کام لو، اور اُس کی ضرورت کے مطابق معاوضہ دو۔”
لیکن پاکستان میں الٹی کتاب چلتی ہے۔ یہاں غریب سے اُس کی ہڈیوں کا گودا تک نچوڑا جاتا ہے، اور بدلے میں ملتا ہے صرف فاقہ، دھکے اور حکمرانوں کی طنزیہ تقریریں۔ یہاں ہر شخص سے اُس کی برداشت کے مطابق ٹیکس لیا جاتا ہے اور اُس کی ضرورت کے مطابق مہنگائی دی جاتی ہے۔
ہمارے حکمرانوں کے نزدیک "ضرورت” کا مطلب بڑا مزے کا ہے۔ غریب کی ضرورت صرف آدھا کلو آٹا، پھٹا ہوا جوتا اور فٹ پاتھ پر پڑی چارپائی ہے۔ لیکن حکمران کی ضرورت؟ وہ ہے اربوں کے محلات، قیمتی گاڑیاں، سیکورٹی اسکواڈ، بیرون ملک کے دورے اور ٹھنڈے ملکوں کی سیر۔ یوں لگتا ہے جیسے یہاں "کمیونزم” نہیں بلکہ "VIP ازم” نافذ ہے۔
سرمایہ دار بھی بڑے فلسفی ہیں۔ مزدور سے صبح سے شام تک خون پسینہ نچواتے ہیں اور جب اجرت کی بات آئے تو کہتے ہیں:
"بھائی، یہ کاروبار ہے، خیرات نہیں۔”
لیکن جب اپنی بیٹی کی شادی پر نوٹوں کی بارش کرنی ہو یا بیٹے کو باہر پڑھانا ہو تو وہی کاروبار خیرات خانہ بن جاتا ہے۔
پاکستان میں مارکس کا اصول یوں الٹا چل رہا ہے:
"ہر شخص سے اُس کی غربت کے مطابق کام لو اور اُس کی محنت کے مطابق ذلت دو۔”
ڈاکٹر رکشہ چلا رہا ہے، انجینئر سیلز مین بن چکا ہے، مزدور قرض کے سود میں ڈوبا ہوا ہے اور غریب عورتیں اپنے زیور بیچ کر بچوں کو دودھ پلا رہی ہیں۔
حکمرانوں کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ انقلاب بھوکے پیٹ سے نکلتا ہے، نہ کہ فلسفے کی کتاب سے۔ عوام اب سوچنے لگے ہیں کہ جب "چولہا ٹھنڈا” پڑ جائے تو پھر نعرے نہیں لگتے، آگ لگتی ہے۔
سیاست دان عوام کو روز نیا خواب بیچتے ہیں۔ کوئی انقلاب کا نعرہ لگاتا ہے، کوئی مدینے کی ریاست کا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ عوام کو صرف صبر کے ٹوٹکے دیتے ہیں، اور اپنے لیے ڈالر کے اکاؤنٹ رکھتے ہیں۔
اگر کارل مارکس آج پاکستان دیکھتا تو ہنستے ہوئے کہتا:
"میں نے کمیونزم لکھا تھا، تم نے اسے کمینگی بنا دیا۔”
اب غریب جان چکا ہے کہ طاقت اُس کے ہاتھ میں ہے۔ شاہ عالمی اور اچھرہ سے اٹھنے والی بھوک کی چیخ اگر ایوانوں سے ٹکرائی تو گلبرگ اور ماڈل ٹاؤن کے محلات لرز جائیں گے۔ غریب کی ایک متحد آواز اینٹی رائٹ فورس اور پیرا فورس کو تنکے کی طرح بہا کر لے جائے گی۔
ورنہ پھر تاریخ یہی لکھے گی:
"یہ وہ لوگ تھے جو مزدور کے پسینے پر محلات بناتے رہے اور ایک دن انہی محلات کی اینٹیں ان کے سر کے تاج بن گئیں۔”
صاحبِ اقتدار کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے، کیونکہ اب تو اندھا بھی دیکھ سکتا ہے کہ وقت قریب ہے۔
عوام کہہ رہی ہے:
"مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے!”


