تحریر :اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
یہ سانحہ محض ایک قتل کی کہانی نہیں بلکہ اس نظام کے سیاہ چہرے کا آئینہ ہے جہاں وردی کے پیچھے چھپے بھیڑیے انصاف کے محافظ کہلانے کے باوجود ظلم کی راہوں کے راہی بن جاتے ہیں۔ قصور کے سی سی ڈی افسر نے جس جرات اور دیانت سے اس واردات کا پردہ چاک کیا، وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ اس نے سیاسی دباؤ، اعلی افسران کی مجرمانہ خاموشی اور طاقتور قاتلوں کے نیٹ ورک کے باوجود، اس کیس کو انجام تک پہنچایا۔مقتول غلام رسول کی زندگی پہلے ہی انتقام اور دشمنی کی بھینٹ چڑھ چکی تھی۔ 19 سال قید کاٹ کر رہائی پانے کے بعد اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ وہ وردی والوں کی سرپرستی میں چلنے والے ایک منظم قتل کے ہتھے چڑھ جائے گا۔ مقصود، جو برطانیہ میں بیٹھ کر انتقام کی آگ میں جل رہا تھا،مقصود نے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے انتقام لینے کا سوچا، مگر جب ناکام رہا تو اس نے اپنے اسکول کے ساتھی، ایس ایچ او سول لائن ذیشان رندھاوا سے رابطہ کیا۔ ذیشان کو چاہیے تھا کہ وہ ایک پولیس افسر کی حیثیت سے قانون کا راستہ دکھاتا، مگر اس نے پیسے اور دوستی کے لالچ میں اپنی وردی کے وقار کو بیچ ڈالا۔15 جنوری کو غلام رسول گھر آیا تو ذیشان کو مقامی نمبردار سے رشوت کے عوض اطلاع ملی۔ ذیشان رندھاوا، پولیس اہلکاروں، پرائیویٹ گن مینوں اور رضاکاروں کی ایک ٹیم کے ساتھ گھر میں گھس آیا۔ خواتین اور مردوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، موبائل فون لوٹ لیے گئے اور غلام رسول کو اس کے سالے کے ساتھ زبردستی گاڑی میں بٹھا کر لے جایا گیا۔ سالے کو اوکاڑہ میں پھینک دیا گیا اور غلام رسول کو سمندری لے جایا گیا۔ وہاں ایک کھیت میں کھڑا کر کے، مقصود نے اس کے ماتھے پر گولی مار مار کر اپنے انتقام کو فتح کا نام دیا۔وہاں بھڑکیں لگائی کہ میں نے باپ اور بحائی کے قتل کا بدلہ لے لیا۔ یہ سب وردی میں ملبو س محافظوں کی موجودگی میں ہوا، جو دراصل کرائے کے قاتل تھے۔جب اس قتل کا کیس شیخم قصور میں درج ہوا تو سیاسی دباؤ اور مقامی بااثر افراد کی مداخلت نے انصاف کی راہ میں دیوار کھڑی کر دی۔ چند لاکھ روپے اور ایک کاغذی صلح نامہ وہ قیمت بنی جس پر مقتول کے خون کا سودا کر دیا گیا۔مدعی افسران کے پاس جا کر انصاف کے لئے دھکے کھاتا رہا لیکن قانون نے آنکھیں بند کر لیں تفتیشی افسران بھی سمجھ گئے کہ اس کیس کا میرٹ افسر کیاچاہتے ہیں اسی وجہ سے سفاک قاتلوں کو بے گناہ قرار دے کر اپنی وردی کو شرمندہ کر دیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب وردی کے وقار کے ساتھ ضمیر کا بھی قتل ہوا۔پولیس کے شعبہ سی سی ڈی نے جب اس کیس کی تہہ تک پہنچ کر اصل ملزمان کو گرفتار کیا، تو سچائی کی وہ پرتیں کھلیں جنہیں طاقتور لوگ دفن کر دینا چاہتے تھے۔ ملزمان نے اعتراف جرم کیا اور قصور پولیس کے اندرونی گھناؤنے کھیل کو بے نقاب کیا۔ یہ اس افسر کی جیت تھی جس نے تنہا پورے نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔یہ کالم ان سب ہیر و نما افسران کے لیے سوال ہے، جو انصاف کے محافظ ہونے کے دعوے کے باوجود ظالموں کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ زمین نہیں پھٹی، آسمان نہیں گرا، لیکن ضمیر ضرور دفن ہو گیا۔ اور شاید یہی اس نظام کا سب سے بڑا المیہ ہے۔


