تحریر: بےنقاب ٹی وی
"جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے”
پاکستان میں پولیس کی کرپشن کا شور ہر گلی، ہر چوک، ہر تھانے کے باہر سنائی دیتا ہے۔
لیکن کبھی کسی نے سوچا… کیا واقعی کوئی چاہتا ہے کہ یہ پولیس کرپشن سے پاک ہو؟
سچ سننے کے لیے تیار رہیں — نہیں، کوئی نہیں چاہتا!
سیاستدانوں کے لیے پولیس طاقت کا بیساکھی ہے۔ مخالفین کو کچلنا ہو، جلسہ توڑنا ہو، ووٹ چرانا ہو یا ڈر کا تڑکا لگانا ہو — یہی پولیس میدان میں اُتاری جاتی ہے۔ اور جب گولی چلتی ہے، خون بہتا ہے، یا میڈیا ہنگامہ مچاتا ہے تو حکمران صاحب آرام سے کرسی پر بیٹھ کر فرماتے ہیں: “یہ سب پولیس کا کیا دھرا ہے!”
بدمعاشی کا لیبل — مگر بنانے والا کون؟
عوام پولیس کو بدمعاش کہتے ہیں، کیونکہ تھانوں میں جھوٹے مقدمے بنتے ہیں، جعلی مقابلے ہوتے ہیں، چھاپوں کے دوران گھر لوٹ لیے جاتے ہیں، خواتین پر تشدد اور تاوان کے کھیل کھیلے جاتے ہیں۔
لیکن کیا یہ سب پولیس والے خود ہی پیدا کرتے ہیں؟ نہیں! یہ وہ بیج ہیں جو اوپر سے بوئے جاتے ہیں، اور نیچے اگتے ہیں۔
نئی وردی، نیا ضمیر؟
حکومت نے پولیس کو سدھارنے کے بجائے نئے نئے محکمے بنا دیے — موٹروے پولیس، کاؤنٹر ٹیررازم فورس، سی سی ڈی، اینٹی رائٹ فورس…
ان میں وردی نئی، تنخواہ اونچی، ڈیوٹی کم، سہولتیں مکمل۔
موٹروے پولیس آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی، شاندار گاڑیاں، صاف ستھرا ماحول — کرپشن کم!
کاؤنٹر ٹیررازم فورس میں سب سے زیادہ تنخواہ، سب سے زیادہ مراعات — کرپشن کم!
سوال یہ ہے: وہی اہلکار جب پنجاب پولیس میں تھا تو کرپٹ تھا، مگر نئی وردی اور نئی پوسٹنگ کے ساتھ ایماندار کیسے ہو گیا؟ کیا یہ وردی کا جادو ہے یا نظام کا فرق؟
حقیقت کا زہر
اصل حقیقت یہ ہے کہ سیاسی حکمران پولیس کو خوشحال نہیں دیکھنا چاہتے۔
کیوں؟
کیونکہ خوشحال اور خوددار پولیس افسر حکم نہیں مانے گا جب حکم غلط ہو۔ اور جب یہ ہتھیار کند ہو جائے گا تو سیاسی مخالفین کو دبانے کا مشن کیسے چلے گا؟
اس لیے انہیں بھوکا رکھو، تھکا دو، تنگ کر دو — اور پھر عوام کو یہی کہو: “یہی تو کرپٹ ہیں!”
زندگی کا ریاضی
پنجاب پولیس کا کانسٹیبل زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار تنخواہ لیتا ہے، ڈیوٹی اٹھارہ گھنٹے!
اپنی موٹر سائیکل کا پٹرول، کھانا، دوائیاں، وردی کا خرچ — سب اپنی جیب سے۔
افسر گالیاں دے، نیند پوری نہ ہو، گھر کا چولہا ٹھنڈا ہو، تو کیا وہ عوام سے مسکرا کر ملے گا یا غصہ نکالے گا؟
یہی وہ اہلکار ہے جو ناکوں پر، چھاپوں کے دوران خطرناک مجرموں کا سامنا کرتا ہے، گولی کھاتا ہے، شہید ہوتا ہے — مگر سسٹم پھر بھی نہیں بدلتا۔
تھانے کا بجٹ: ایک مذاق
ایس ایچ او کے پاس تھانے کا بجٹ نہیں، مگر افسران کے دفاتر کے لیے بجٹ آتا ہے — وہ بھی کم۔
نتیجہ؟ ماتحت اہلکار مجبوراً عوام یا ملزمان سے اخراجات نکالتے ہیں۔ یہی وہ کڑوی حقیقت ہے جس نے پولیس کا ایمیج تباہ کر دیا۔
اصل جرم کہاں ہے؟
اصل جرم پولیس والے کا نہیں — اصل جرم اس نظام کا ہے جو اس کو کرپٹ رہنے پر مجبور کرتا ہے، تاکہ اوپر بیٹھے لوگ آرام سے اپنی سیاسی بساط کھیل سکیں۔
اگر ہم نے پولیس کو غلامی سے آزاد، خوشحال اور خود مختار نہ بنایا، تو یاد رکھیں: کرپشن کا شور یونہی گونجتا رہے گا، اور اصل مجرم پردے کے پیچھے مسکراتے رہیں گے۔

