اسد مرزا
اگر دنیا میں کبھی معصوم قوموں کا ورلڈکپ ہو، تو یقین کریں پاکستانی عوام نہ صرف فائنل میں پہنچ جائے، بلکہ بغیر کھیلے ٹرافی بھی لے آئے — کیونکہ ہم اس قابل ہیں۔ اور پھر وہی خبر ہم اپنے ہی پیسوں سے چھپوا کر خود پڑھیں گے:
"مبارک ہو! پاکستانی قوم دنیا کی سب سے معصوم قرار”
اور یہی سن کر خوشی سے ناچنا بھی شروع کر دیں گے — کیونکہ خوش ہونے کے لیے حقیقت کافی نہیں، صرف اشتہار کافی ہوتا ہے۔
ہم وہ لوگ ہیں جو سگریٹ نہ پی کر بھی سگریٹ پر ٹیکس دیتے ہیں۔ گاڑی نہ رکھیں تب بھی پٹرول پر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اور اگر صرف پیدل ہی چلیں تو بھی سڑک پر پڑے گڑھوں کی قیمت ہم سے ہی وصول کی جاتی ہے — کیونکہ گڑھے بھی ہمارے، ٹیکس بھی ہمارا، اور تکلیف بھی ہماری۔
یہی نہیں، جب انہی سڑکوں پر گر کر اسپتال پہنچتے ہیں، تو ہمیں "فری علاج” کے نام پر ایسی دوا دی جاتی ہے جس سے یا تو افاقہ نہیں ہوتا، یا بندہ ہی نہیں بچتا۔
دوائی کے ڈبے پر اشتہار ایسے جیسے نئی زندگی مل رہی ہو، اور حقیقت میں؟ دوا نہیں، آخری سلام۔
ہمارے ہی پیسوں پر بننے والے ڈاکٹر، سرکاری تنخواہ لینے کے بعد اپنی پرائیویٹ کلینک میں بیٹھ کر وہی مریض دیکھتے ہیں جو اپنی دوا بھی خود لاتا ہے، فیس بھی دیتا ہے، اور دعا بھی مانگتا ہے — صرف اس لیے کہ ڈاکٹر صاحب خوش رہیں، کیونکہ وہ بھی تو "معصوم” ہیں۔
افسر شاہی؟
سرکاری گاڑی، سرکاری پیٹرول، سرکاری ایئرکنڈیشن، سرکاری نوٹ — سب کچھ ہمارے خرچ پر، مگر مزاج؟ جیسے کسی سلطنت کے شہزادے ہوں۔
یہ وہ طبقہ ہے جو عوام کو سادگی کا درس دیتے ہیں، اور خود یورپ میں پلاٹس، شیل کمپنیاں اور شہریتیں اکٹھی کرتے رہتے ہیں۔
خواجہ آصف نے خود بتایا کہ آدھی بیوروکریسی پرتگال میں جائیدادیں خرید چکی ہے، اور اب وہیں "پر سکون” ریٹائرمنٹ کی تیاری کر رہی ہے۔
جبکہ ہم؟
ہم اپنی ریٹائرمنٹ میں یوٹیلیٹی اسٹور کی لائن میں کھڑے ہیں — اگر اسٹور بند نہ ہو جائے تو۔
یہی افسران جب پاکستان آتے ہیں تو پانی کی بوتل اٹھا کر پوچھتے ہیں:
"یہ منرل ہے ناں؟”
اور ہمیں کہتے ہیں:
"قربانی دیں، ملک مشکل میں ہے!”
یعنی قربانی صرف ہم دیں، کیونکہ اُن کے لیے تو ہر دن عید ہے۔ ڈالر چمک رہی گاڑیوں میں بیٹھ کر وہ ہمیں کہتے ہیں: "قوم کو بچانا ہے!”
حالانکہ قوم کب، کہاں اور کس سے بچانی ہے — یہ وہی نہیں بتاتے۔
اب ذرا آئی ایم ایف کی بات کر لیں۔
جب معیشت گرنے لگتی ہے، تو حکومت فوری چالانوں، جرمانوں اور ٹیکسوں سے اسے اٹھانے کی کوشش کرتی ہے۔
ہیلمنٹ نہیں پہنا؟
ٹیکس!
سیٹ بیلٹ نہیں باندھی؟
ٹیکس!
سائیکل پر جا رہے ہو؟
ذرا رک جاؤ، اب اُس پر بھی سوچا جا رہا ہے!
دکاندار ٹیکس دے، رشوت دے، انسپکٹر کا حصہ دے، چائے پانی دے کر کاروبار چلائے — اور پھر بھی بدنام وہ ہو کہ مہنگائی بڑھا رہا ہے۔
اور ہم؟
ہم دوگنی قیمت پر بھی اتنے خوش ہوتے ہیں جیسے "بائیکاٹ” نہیں، بارات ہو!”
کیونکہ ہم نے سیکھ لیا ہے کہ جینا ہے تو "چپ” رہو۔
جو بولے وہ غدار
جو چپ رہے وہ محب وطن
جو زندہ بچ گیا وہ "خوش نصیب”
جو مر گیا وہ "قومی ہیرو”
تو اگر اگلی بار کوئی آپ سے پوچھے:
"کیا حال ہے؟”
تو بڑے فخر سے کہیے:
"ہم بے حد معصوم ہیں — کیونکہ ہم اب بھی ٹیکس دیتے ہیں!”


