تحریر اسد مرزا
لاہور کے پوش علاقے ڈیفنس بی میں چینی شہریوں کے گھر میں ہونے والی 1 کروڑ 80 لاکھ روپے کی چوری کی واردات صرف ایک جرم نہیں بلکہ کئی جرائم کی پرتیں کھولتی ہے۔ واردات کے 36 گھنٹوں کے اندر پولیس نے مرکزی ملزم علی عزیز، شبیر اور امتیاز کو گرفتار کر کے 1 کروڑ 20 لاکھ روپے کی رقم برآمد کر لی۔ یہ بظاہر ایک بڑی کامیابی دکھائی دی، لیکن معاملہ وہیں ختم نہیں ہوا۔اے ایس پی ڈیفنس شہر بانو نقوی، جو خود ایک منجھی ہوئی اور فرض شناس پولیس افسر ہیں، نے جب باریکی سے جائزہ لیا تو ان کے لئے یہ بات ناقابلِ ہضم تھی کہ اگر 1 کروڑ 20 لاکھ روپے برآمد ہو گئے تو باقی 60 لاکھ روپے کہاں گئے؟ تحقیقات کا آغاز ہوا، اور جلد ہی یہ انکشاف ہوا کہ چوری صرف گھر میں نہیں ہوئی بلکہ پولیس اہلکاروں کے ضمیر میں بھی ہوئی۔ایس ایچ او علی حسن، سب انسپکٹر خالد محمود، اے ایس آئی جاوید اقبال، غضنفر، کانسٹیبل ابرار، شہباز اور طاہر کو انکوائری میں الزامات ثابت ہونے پر معطل کر دیا گیاڈی آئی جی آپریشن فیصل کامران نے اس معاملے کی مذید تحقیقات ایس ایس پی آپریشن تصور اقبال کے سپرد کر دی ۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ پولیس نے چوروں سے برآمد کی گئی رقم میں سے اپنا حصہ نکال لیتے ہیں۔ پولیس کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جہاں وہ مدعی کو انصاف دینے کی بجائے اپنے مالی فائدے کو مقدم رکھتی ہے۔عوام اور افسران کو بتانے کے لئے بڑی وارداتوں کے مدعیوں کوموبائل کال پر خوش کر دیتے ہیں کہ آپ کے چور یا ڈاکو پکڑے گئے آکر ریکوری لے جائیں تب انہیں معمولی رقم دیکر ٹرخا دیا جاتا ہے باقی امثلاجات کا پیٹ بھر کے چالان جمع کرا دئیے جاتے حلانکہ انکے ملزم آذاد پھرتے ہیں اگر کوئی انکشافات کرے کہ فلاںفلاں واردات ہم نے کی جب تصدیق کی جاتی ہے تو علم ہوتا ہے کہ اس کیس کے ملزم تو چالان کر دئیے گئے اسطرح متعلقہ افسر انکی سپیشل رپورٹ بنانے کی بجائے انکی مجرمانہ غفلت پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ہاں اگر مدعی کے پیچھے کوئی بااثر شخصیت ہو تو بازی پلٹ جاتی ہے، اور مدعی کو دوسرے گینگ سے برآمد شدہ مال بھی تحفے میں دے دیا جاتا ہے۔ایک مثال ماضی کی ہے جب پنجاب کی اہم شخصیت کی اہلیہ کے بیگ سے 5 لاکھ روپے ایک لیڈیز سیلون میں چوری ہو گئے۔ پولیس نے نہ صرف ملزم کو گرفتار کیا بلکہ ریکوری کے طور پر 10 لاکھ روپے برآمد کر لئے۔ خاتون نے معصومیت سے آئی جی پنجاب کو شکایت کر دی کہ جب 5 لاکھ چوری ہوئے تھے تو 10 لاکھ کیسے واپس مل گئے؟ اور مرد چور لیڈیز سیلون میں داخل کیسے ہو گیا؟ آئی جی لاجواب ہو گئے اور انکوائری کا حکم دیا۔ نتیجہ؟ سب کچھ افسران کی خوشنودی کے لئے کیا گیا تھا۔پولیس کا یہ رویہ عام شکایت کنندگان کے ساتھ مختلف ہوتا ہے۔ اگر کوئی عام شہری ہو تو وہ چوری کا شکار ہو کر بھی پولیس سے صرف وعدے ہی سن پاتا ہے، جبکہ مال کی ریکوری پولیس کے بینک اکاؤنٹ میں جا بیٹھتی ہے۔ کئی پولیس اہلکار جو کبھی موٹر سائیکل پر گشت کرتے تھے، آج بڑی گاڑیوں اور بنگلوں کے مالک ہیں۔ اس سب کے باوجود وہ خود کو ایماندارکہلاتے ہیں۔ایسے ماحول میں نظام شاہد درانی جیسے افسران امید کی کرن دکھائی دیتے ہیں۔ جب وہ ڈی ایس پی وزیرآباد تعینات تھے، تو ان کے سامنے ایک چوہدری نے 25 لاکھ روپے رشوت کے طور پر بریف کیس میں رکھ کر پیش کئے تاکہ زیر حراست ملزمان کو چھوڑ دیا جائے۔ ڈی ایس پی درانی نے نہ صرف رشوت ٹھکرا دی بلکہ اس چوہدری کو دفتر سے نکال دیا۔ بعد میں وہی پارٹی ایک پرانے ماتحت تھانیدار کے پاس پہنچی، اسے بھی لالچ دیا لیکن درانی صاحب نے پہلے ہی کال کر کے منع کر دیا تھا۔ نتیجتاً وہ ملزمان بے گناہ قرار دے کر چھوڑ دیے گئے، اور افسر نے اپنی دیانت سے ایک مثال قائم کی۔ایسے ہی افسران ہی پولیس کا اصل چہرہ ہیں، جن کی دیانت، اصول پسندی اور فرض شناسی ادارے کا وقار بلند کرتی ہے۔ افسوس کہ ان جیسے افسران آٹے میں نمک کے برابر ہیں، اور اکثریت اُن کی ہے جن کی وردی کے نیچے کردار کا قحط ہے۔آخر میں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارا نظام اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ پولیس جیسا ریاستی ادارہ بھی لوٹ مار کا حصہ بن جائے؟ اور اگر کسی ایماندار افسر کو یہ سب ہضم نہیں ہوتا، تو کیا وہ بھی نظام کا شکار بن کر رہ جائے گا؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ پولیس میں احتساب، شفافیت، اور کردار کی بنیاد پر اصلاحات کی جائیں تاکہ یہ ادارہ عوام کا محافظ بن سکے، شریکِ جرم نہیں۔

