تحریر: اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
لاہور اور اس کے آس پاس ایک معمولی خوشی کی خواہش نے آج کئی گھر اجاڑ دیے—ایک نوجوان کی زندگی کٹی ڈور کی ایک چھینی ہوئی لکیربن کر رہ گئی، ایک اور نوجوان زخمی حالت میں اسپتال پہنچا۔ پتنگ بازی کی محفلیں، جنہیں لوگ برسوں سے بہار کی علامت سمجھتے آئے ہیں، آج درد اور خاموشی کا سبب ہیں۔
رات کے بعد کے لمحات میں جب شہر کی فضا میں پتنگیں اڑ رہی تھیں، کسی نے کٹی ہوئی تیز دھار ڈور کو معمولی لکیرسمجھا ہوگا۔ مگر یہی لکیر ایک گھر کے چراغ کو ہمیشہ کے لئ بجھا گئیں۔ نوجوان کی ڈور سے کٹی گردن نے اس کے گھروالوں کو وہ روگ دیا جس کے بعد سے ان کی زندگیاں ہمیشہ کے لئے بدل گئیں ہنستا بستا ، خوشیوں بھرا گھر، ایک لمحے میں سوگ اور بین کی خاموش آوازوں سے گونج اٹھا — والدین، بہن بھائی، رشتہ دار، سب کے سب سن اور سکتے میں تھے ایسے کیسے۔۔۔ ایسے کیسے زندگی سے بھرپور ،ان کے اور اپنے روشن مستقبل کا نشان بیٹا، بھائی پلک جھپکتے میں ان سے جدا ہوا۔
کالا شاہ کاکو میں بھی حال ہی میں ایک نوجوان ڈور کے پھرنے سے زخمی ہوا — گردن پرلہو ابلتا زخم، اکھڑی سانسوں میں انجانا سا درد، اور ایک فیملی کے دل میں خوف کی گہری تہہ۔ اسپتال کے کمرے میں، چھوٹا سا سفید بستر اور بڑے بڑے سوال: کیا یہ تہوار انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے قابلِ قبول ہے؟ یہ لاپرواہی کتنے جوانوں کا خون اور مانگے گی؟
پنجاب حکومت نے اس واقعے کا نوٹس لیا اور بسنت کی بحالی پر غور کے دوران حفاظتی پہلوؤں کو اُجاگر کیا جا رہا ہے، مگر ہر سرکاری اجلاس، ہر سفارش، ہر حفاظتی لائحہ عمل ایک زندہ انسان کی قیمت پر آزمایا جاتا ہے۔ ماضی کے واقعات—کیمیکل مانجھا، بجلی کے تاروں سے ٹکرانے والے حادثات، ہوائی فائرنگ—یہ سب اس تہوار کی روشنی کے پیچھے چھپی تاریکیاں ہیں۔ آج بھی جب کسی کو پتنگ کی ڈور کی لکیروں کے قریب سے گزرنا پڑتا ہے تو وہ شامِ بہار بسنت کے رنگ،خوشبو اور ترانے نہیں خطرے کی گھنٹی سن رہا ہوتا ہے۔
ان شہروں کے بازار، گلیاں اور کروڑوں آنکھوں کے سامنے وہ بچے جو پتنگیں بیچتے ہیں، وہ جوان جو پتنگ اڑانے کی مشقیں کرتے ہیں، وہ گھر جن کی کھڑکیاں اب ادھ کھلی رہ جاتی ہیں—ان سب کے لیے ایک سادہ سی حقیقت واضح ہے،“ خوشی کا جشن اگر زندگی کے حق کی پروا نہ کرے تو وہ جشن زندگی کا ہرجانہ وصول کرکے رہتا ہے“۔
ہم احترام کے ساتھ یاد کرتے ہیں اس جان کے ضیاع کو، اور ان زخمیوں کو جو اپنے چھوٹے محلوں میں واپس آئے تو سب کچھ بدل چکا تھا—مسکراہٹیں ماند، چیخیں خاموش، اور ہر وہ دن جو پہلے معمول تھا، اب سوال بنتا چلا جا رہا ہے۔
یہ واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ ثقافت اور روایات کی قدر و قیمت تبھی محفوظ رہ سکتی ہے جب اُن کے ساتھ حفاظت، ضابطہ اور ذمہ داری جڑی ہو۔ نہ تو کسی تہوار کو مکمل طور پر ممنوع قرار دینا راحتِ حل ہے اور نہ ہی لاپرواہی کو اجازت دینا عقل مندی۔ لیکن ایک شفاف، عملی، اور انسانیت کو مقدم رکھنے والا روڈ میپ ضروری ہے — تاکہ اگلی بار جب پتنگ آسمان کی طرف اٹھے، تو نیچے سڑکوں پر سفر کرتے ، تھڑوں پربیٹھے لوگ خوف کے بجائے سکون محسوس کریں۔
بے نقاب TV اس دردناک نقصان پر غمگین ہے اور اُن خاندانوں کے ساتھ کھڑا ہے جو آج اپنے پیاروں کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔ زندگی کی قدروقیمت کے پیشِ نظر ہر فورم، ہر ذمہ دار کو چاہیے کہ وہ تہواروں کے انعقاد میں انسانیت کو اولین ترجیح دے — ورنہ خوشیوں کے مناظر یادوں میں بس ٹوٹ پھوٹ کے عکس چھوڑ جائیں گے۔


