مظفر آباد :(خصوصی رپورٹ ) قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی قیادت کے بارے میں اہم پیشرفت حاصل کرتے ہوئے ان کے ممکنہ مقامات کا سراغ لگا لیا ہے، تاہم موجودہ حالات کے پیش نظر براہِ راست کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی۔
اداروں نے اس حوالے سے آزاد جموں و کشمیر کی حکومت سے تعاون کی درخواست کی ہے کیونکہ وہاں کسی بھی قسم کی کارروائی یا گرفتاری کے نتیجے میں امن و امان کی صورتحال بگڑنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق وفاقی اداروں نے اپنی معلومات اور نگرانی کے نتائج آزاد کشمیر انتظامیہ کے ساتھ شیئر کر دیے ہیں تاکہ قانونی اور انتظامی سطح پر مشترکہ حکمت عملی طے کی جا سکے۔ تاہم، آزاد کشمیر حکومت خود بھی ایک نازک پوزیشن میں ہے کیونکہ کسی ممکنہ کارروائی کی صورت میں اسے عوامی ردعمل یا سیاسی دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب، سب سے اہم سوال جو اب تک جواب طلب ہے، وہ یہ ہے بھاری قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری کا گھیراو ایجنسیز کی رپورٹس کے بسوجود ٹی ایل پی قیادت آزاد کشمیر کیسے پہنچی؟ اس بارے کوئی باضابطہ بیان سامنے آیا، نہ ہی کسی ادارے نے اس پر واضح مؤقف اختیار کیا ہے۔ یہی وہ خاموشی ہے جو اس پورے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔
۔انتظامی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل طور پر متحرک ہیں، لیکن کارروائی سے قبل سیاسی و سماجی ردعمل کے پہلوؤں پر غور کیا جا رہا ہے تاکہ کسی بڑے تصادم یا بدامنی سے بچا جا سکے۔ اس معاملے میں وفاقی اور آزاد کشمیر حکومت کے درمیان مسلسل رابطہ جاری ہے، تاہم فریقین ابھی تک کسی حتمی حکمت عملی پر نہیں پہنچ سکے۔

