تحریر: تحریر صفدر علی سرگانہ
پنجاب، برصغیر کی تاریخ کا ہ باب ہے جو ہمیشہ طاقت، تہذیب، اور مزاحمت کے استعارے کے طور پر زندہ رہا ہے۔ یہ خطہ جہاں صدیوں سے دریا بہتے ہیں، وہیں فکری اور سیاسی تحریکوں کے چشمے بھی پھوٹتے رہے ہیں۔ مگر افسوس کہ بعض تاریخ نویسوں نے اس عظیم دھرتی کے کردار کو جان بوجھ کر مسخ کرنے کی کوشش کی — پنجاب کو حملہ آوروں کا خیرمقدم کرنے والا، اور محکومی کو اپنی فطرت مان لینے والا خطہ بنا کر پیش کیا گیا۔
یہ بیانیہ صرف ایک علمی غلطی نہیں، بلکہ ایک فکری بددیانتی تھی جس نے پنجاب کے اصل تاریخی کردار پر دھند چھا دی۔ ایسے ہی ماحول میں پروفیسر ڈاکٹر تراب الحسن سرگانہ کی تازہ تصنیف "مقدمہ پنجاب: تاریخ اور تاریخ نویسی کے تناظر میں” ایک فکری بیداری کی صدا بن کر ابھری ہے۔ یہ کتاب محض تاریخ کا مطالعہ نہیں بلکہ ایک علمی دفاع ہے — ایسا مقدمہ جو پنجاب پر لگائے گئے صدیوں پرانے الزامات کو دلیل، تحقیق اور مستند شواہد کی روشنی میں باطل ثابت کرتا ہے۔
ڈاکٹر تراب الحسن سرگانہ، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے معروف مؤرخ ہیں۔ وہ محض تدریسی منصب پر فائز نہیں، بلکہ پنجاب کی مزاحمتی روح کے ترجمان ہیں۔ ان کی پی ایچ ڈی تحقیق "رائے احمد خان کھرل: 1857ء کی تحریکِ آزادی کے ہیرو” نے جنوبی پنجاب کی تاریخ میں نئی جہتیں متعارف کرائیں۔ جس کردار کو نوآبادیاتی مؤرخین نے دانستہ نظرانداز کیا، اُسے ڈاکٹر سرگانہ نے اپنی تحقیق سے امر کر دیا۔ یہ ثابت کیا کہ پنجاب ہمیشہ ظلم کے خلاف کھڑا رہا ہے — کبھی بھی جبر کا ساتھ نہیں دیا۔
ان کی دوسری کتاب "مقدمہ پنجاب” دراصل پنجاب کی عزتِ نفس کی بحالی کا علمی منشور ہے۔ اس میں مصنف نے 1857ء کی جنگِ آزادی کے دوران پنجابی سپاہیوں، زمینداروں اور رہنماؤں کی قربانیوں کو نمایاں کیا، اور اس گمراہ کن تصور کو توڑا کہ پنجاب انگریزوں کا حلیف تھا۔ تاریخی دستاویزات اور نادر حوالوں سے یہ حقیقت آشکار کی گئی کہ پنجاب ہمیشہ حملہ آوروں کے خلاف برصغیر کی پہلی دفاعی دیوار رہا — چاہے وہ سکندرِ اعظم ہو، تیمور ہو یا انگریز سامراج۔
یہ کتاب دراصل پنجاب کی تاریخ کا مقدمہ نہیں، بلکہ پنجاب کی روح کا مقدمہ ہے۔ ڈاکٹر تراب الحسن سرگانہ نے جس علمی جرات، فکری دیانت اور تحقیقی گہرائی سے تاریخ کے مسخ شدہ بیانیے کا پردہ چاک کیا ہے، وہ ہمارے علمی اداروں اور نوجوان محققین کے لیے رہنمائی کا مینار ہے۔
آج جب تاریخ کو سیاسی مفادات کے سانچے میں ڈھالنے کی کوششیں جاری ہیں، ایسے وقت میں ڈاکٹر تراب الحسن سرگانہ جیسے مؤرخین امید کی کرن ہیں۔ انہوں نے پنجاب کے نام کو عزت بخشی، اس کے مجاہدوں کو یاد کیا، اور دھرتی کے دامن پر لگے مصنوعی داغ مٹا دیے۔
میں پروفیسر ڈاکٹر تراب الحسن سرگانہ کی اس علمی خدمت کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ یہ محض ایک کتاب نہیں بلکہ پنجاب کی شناخت، وقار، اور تاریخی شعور کی بحالی کا اعلان ہے۔
ڈاکٹر تراب الحسن سرگانہ نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ پنجاب کا مقدمہ صرف عدالتِ تاریخ میں نہیں، بلکہ اہلِ علم و دانش کے ضمیر میں ہمیشہ کے لیے جیت چکا ہے۔


