واشنگٹن:اسرائیل اور حماس غزہ امن پلان پر آمادہ۔۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو غزہ کی پٹی پر بمباری روکنے کا حکم دیا ہے۔یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حماس نےیرغمالیوں کی رہائی سمیت صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کے چند نکات کو تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ جبکہ اسرائیل نے غزہ پر قبضہ روک کر محض دفاعی آپریشنز تک محدود رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس منصوبے کا مقصد تقریباً دو برس سے جاری جنگ کا خاتمہ اور سات اکتوبر 2023 کے حملے میں تحویل میں لیے گئے باقی تمام یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنانا ہے۔
غیرملکی نیوز ایجنسی کے مطابق حماس کا کہنا ہے کہ وہ یرغمالیوں کو رہا کرنے اور اقتدار دیگر فلسطینیوں کو سونپنے کے لیے تیار ہے تاہم منصوبے کے دیگر پہلوؤں پر مشاورت کی ضرورت ہے۔
حماس کے سینیئر رہنماؤں نے عندیہ دیا ہے کہ اب بھی کئی بڑے اختلافات باقی ہیں جن پر مزید مذاکرات کی ضرورت ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کے ردعمل کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرا یقین ہے کہ وہ دیرپا امن کے لیے تیار ہیں
انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ اسرائیل کو فوراً غزہ پر بمباری بند کرنی چاہیے تاکہ ہم یرغمالیوں کو بحفاظت اور فوری طور پر نکال سکیں۔ اس وقت ایسا کرنا بہت خطرناک ہے۔ ہم پہلے ہی اس حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں۔ سی این این کے مطابق اسرائیل کی حکومت اور فوج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے پہلے مرحلے کے لیے تیاری کر رہی ہے،
حماس نے کہا تھا کہ اس نے ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے "فوری طور پر” مذاکرات کرنے پر اتفاق کیا ہے –
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہوکے دفتر کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ "حماس کے ردعمل کی روشنی میں، اسرائیل تمام مغویوں کی فوری رہائی کے لیے ٹرمپ کے منصوبے کے پہلے مرحلے کو فوری طور پر نافذ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
دونوں اطراف سے یہ بیانات ٹرمپ کی طرف سے حماس کے لیے اپنے امن منصوبے کو قبول کرنے کے لیے اتوار کی مقرر کردہ ڈیڈ لائن سے پہلے سامنے آئے ہیں۔
اسرائیلی فورسز آئی ڈی ایف کے مطابق انہوں نے "سیاسی رہنما” کے احکامات کے بعد "ٹرمپ پلان کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کے لیے پیشگی تیاری” کی ہدایات دی ہیں۔ جبکہ غزہ میں کارروائیاں روک دی گئی ہیں۔
ہفتے کے روز حماس نے کہا تھا کہ وہ ثالثوں کے ذریعے مذاکرات میں فوری طور پر داخل ہونے کے لیے تیار ہے، اور کہا کہ وہ غزہ کی حکمرانی "فلسطینی قومی اتفاق رائے اور عرب اور اسلامی حمایت پر انحصار کے ساتھ آزاد فلسطینی اتھارٹی (ٹیکنو کریٹس) کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے۔”
بقیہ 48 یرغمالیوں کی 72 گھنٹوں کے اندر رہائی اور غزہ میں اقتدار چھوڑنے کا معاہدہ ٹرمپ کی تجویز کے دو اہم مطالبات تھے، لیکن انہیں ممکنہ سرخ لکیروں کے طور پر دیکھا گیا جس کی وجہ سے حماس اس منصوبے کو مسترد کر سکتی ہے۔
حماس کے ردعمل میں تخفیف اسلحہ یا ہتھیاروں کی تخفیف کا کوئی ذکر نہیں ہےنہ ہی حماس نےغزہ میں گورننس کی نگرانی کے لیے ٹرمپ کی سربراہی میں ایک بین الاقوامی نگرانی کمیٹی کی جسے”بورڈ آف پیس” کا نام دیا ہے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔اس کے بجائے، حماس نے کہا کہ امریکی تجویز میں مذکور باقی مسائل، "غزہ کی پٹی کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے موروثی حقوق سے متعلق،” مستقبل میں زیر بحث آئیں گے۔
حماس نے یہ بھی اصرار کیا کہ اسے "جامع قومی فلسطینی فریم ورک” میں "شامل کیا جائے گا اور پوری ذمہ داری کے ساتھ تعاون کرے گا

