تحریر : اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
کینیڈا کی آبادی میں اضافے کی رفتار اتنی سست ہوگئی ہے کہ اب شاید کیلنڈر کے صفحات بدلنے سے زیادہ تیزی نظر آتی ہے۔ ادارہ شماریات کینیڈا کے مطابق اپریل سے جولائی کے درمیان صرف 47 ہزار لوگ ہی آبادی میں شامل ہوئے، یعنی 0.1 فیصد کا "بہت بڑا” اضافہ۔ یہ رفتار 1946 کے بعد کی سب سے کم ہے، لیکن حکومت اسے شاید "کامیابی” کہہ کر جشن منائے گی۔
اصل مسئلہ غیر مستقل رہائشی ہیں، جن کی تعداد میں 58 ہزار سے زائد کی کمی آگئی۔ یوں لگتا ہے جیسے لوگوں نے سوٹ کیس پیک کیے اور سیدھا ایئرپورٹ کا رخ کرلیا۔ وجہ؟ حکومت نے 2024 میں پالیسیاں سخت کر کے عارضی ورکرز اور اسٹڈی پرمٹس کو قینچی لگا دی۔ پہلے یہی حکومت بحران کے بعد مزدور درآمد کرنے میں مصروف تھی، اب امیگریشن پر بریک لگا کر کہہ رہی ہے: "شکریہ، اب ہمیں اتنے لوگوں کی ضرورت نہیں۔
معاشی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگرچہ فی الحال کوئی بڑا دھچکا نہیں لگے گا، لیکن وہ شعبے جو زیادہ تر غیر ملکی مزدوروں پر چلتے ہیں—تعمیرات، فوڈ پروڈکشن اور بزرگوں کی دیکھ بھال—جلد ہی سمجھ جائیں گے کہ "آبادی کی سست رفتاری” صرف کاغذ پر اچھی لگتی ہے، عملی زندگی میں نہیں پیدائش کی کم شرح اور اوسط عمر میں اضافے کی وجہ سے کینیڈا کی آبادی تیزی سے بوڑھی ہو رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کام کرنے والی آبادی کے مقابلے میں پنشن لینے والے اور صحت کی دیکھ بھال پر انحصار کرنے والے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ مزدوروں کی تعداد میں کمی سے معیشت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ افرادی قوت کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مختلف شعبوں، جیسے صحت، ٹیکنالوجی اور زراعت، میں ہنرمند افراد کی شدید ضرورت کا احساس ہوگا اس وقت ا ن ماہرین کا ملناشائد ناممکن تو نہیں مشکل ضرورہوگا۔
امیگریشن ہی کینیڈا کی آبادی کو بڑھنے اور اس کی عمر کے توازن کو برقرار رکھنے کا واحد ذریعہ ہے۔ اگر امیگریشن نہ ہو تو کینیڈا کی آبادی سکڑنا شروع ہو جائے گی، جس سے طویل مدتی اقتصادی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ جبکہ
یوں لگتا ہے کہ کینیڈا نے اپنی آبادی کی رفتار کو اتنا بریک لگا دیا ہے کہ اب شاید ٹریفک پولیس بھی جرمانہ کر دے!
کیونکہ اب انفرادی آزادی اور کیریئر پر توجہ بڑھ گئی ہے، جس کی وجہ سے کینیڈئین شادی اور بچے پیدا کرنے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ڑے شہروں میں رہائش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور عمومی مہنگائی نوجوان جوڑوں کے لیے بچے پیدا کرنے کو مشکل بنا رہی ہے۔
آج کل کی نسل کے والدین اتنے مہنگے ہو گئے ہیں کہ ان کی قیمت کا اندازہ صرف ان کے بچوں کی تعداد سے لگایا جا سکتا ہے: ایک بچہ فی خاندان یعنی ‘لیمیٹیڈ ایڈیشن’
اور لگتا ہے کہ آئندہ پندرہ سال بعد کینڈا کے سکولوں میں ‘فیملی گیدرنگ’ کی جگہ ‘سولو گیدرنگ’ ہوگی، کیونکہ ہر بچہ اکیلا ہوگا۔ نہ بھائی ہوگا نہ بہن اور دیگر رشتے داروں یعنی پھوپھی پھوپھا خالہ خالو ماموں ممانی چچا چچی اورتایا تائی کا تو خیر ذکر ہی کیا ۔۔ کیونکہ یہ سب تو انکل اور آنٹی ہیں مسئلہ کزنز کا ہوگا کیونکہ اگر انکل آنٹی نہیں تو کزن بھی نہیں ۔”


