تحریر : اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
کہا کرتے تھے کہ پاکستان میں ہر محفل میں یا تو سیاست پر گفتگو ہوتی ہے یا کرکٹ پر۔ مگر یہ پرانا زمانہ تھا۔ اب تو صورتِ حال یہ ہے کہ گلی کے نکڑ سے لے کر ڈی ایم جی کی شاندار میٹنگ تک، اور ڈرائنگ روم سے لے کر "بدمعاشوں کی بیٹھک” تک، سب کی زبان پر ایک ہی لفظ ہے: سی سی ڈی۔
جی ہاں، وہی سی سی ڈی جس کے سربراہ سہیل ظفر چٹھہ صاحب ہیں، جو نہ کسی "سی پی او صاحب” کے پروٹوکول کے محتاج ہیں، نہ کسی "سابق ایم این اے” کی ٹوپی کے۔ ان کی موجودگی نے پنجاب کے جرائم پیشہ عناصر کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں اور ن لیگ کے اجلاسوں میں تھر تھلی مچا دی ہے۔
فیصل آباد کی ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس دیکھ لیجیے۔ وہاں سی پی او صاحبزادہ بلال عمر بڑے فخر سے بتا رہے تھے کہ "فیصل آباد پولیس کی کارروائیوں سے کرائم ریٹ کم ہوا ہے۔” ابھی یہ جملہ مکمل نہ ہوا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے عہدیدار نے گویا بم پھوڑ دیا:
"معاف کیجیے گا، کرائم کم ہوا ہے تو سی سی ڈی کی وجہ سے، آپ کی وجہ سے نہیں!”
بس جناب، پھر کیا تھا! اجلاس نے ایک دم "کمیٹی” سے "کشتیاں” بنالیں۔ زبانوں سے تلواریں نکل آئیں، اور جملے ایسے چلنے لگے جیسے فیصل آباد کے پاور لومز۔ سی پی او صاحب کے چہرے کا رنگ بدلتا گیا اور ن لیگی قیادت کی آوازیں بلند ہوتی گئیں۔ لگ رہا تھا اگلے لمحے اجلاس میں چائے نہیں بلکہ کرسیوں کی "چائے پارٹی” شروع ہو جائے گی۔
یہ سب کچھ دیکھ کر ڈپٹی کمشنر ندیم ناصر کو مداخلت کرنی پڑی۔ وہ ن لیگی قیادت کو اپنے دفتر لے گئے اور وہاں گھنٹہ بھر مشاورت کی، جیسے کسی بڑے عالمی مسئلے پر اقوامِ متحدہ کا اجلاس ہو۔ اس دوران سی پی او صاحب انتظار گاہ میں یوں بیٹھے رہے جیسے پرانے زمانے کا دلہا "بارات کے بغیر”۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے لوگ اب پولیس کے کسی افسر یا کسی سیاسی قیادت کو جرائم میں کمی کا کریڈٹ دینے پر تیار نہیں۔ وہ کھلے عام کہتے ہیں: "یہ سب سہیل ظفر چھٹہ اور ان کی سی سی ڈی کا کمال ہے!”
اب تو گھروں کی خواتین بھی سالن ہلانے کے ساتھ ساتھ کہتی ہیں:
"اللہ سی سی ڈی کو سلامت رکھے، ورنہ ڈاکو تو باہر بیٹھے ہیں!”
سی سی ڈی کا نام اس قدر عام ہو گیا ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے جلد ہی پنجاب کے نصاب میں نیا مضمون شامل ہوگا: سی سی ڈی اسٹڈیز۔ جس میں طلبا کو یہ پڑھایا جائے گا کہ ” چٹھہ صاحب نے کس طرح ڈاکوؤں کو تھپڑ مار کے سیدھا کیا اور جرائم کا گراف گرا دیا۔”
ادھر فیصل آباد کے اجلاس میں ن لیگ کے رہنماؤں کی جھنجھلاہٹ بھی سمجھ میں آتی ہے۔ آخر وہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں کہ ایک سرکاری افسر "پروٹوکول” نہ دے اور عوامی زبان پر ان کے بجائے کسی اور کا ذکر ہو؟ یہی تو اصل جرم ہے: سہیل ظفر چٹھہ کا وہ "پروٹوکول” عوام نے انہیں خود دے دیا ہے جو کسی سیاسی قیادت نے نہ دیا۔
کالم کا حاصلِ کلام یہی ہے کہ آج پنجاب میں اگر کسی کا نام خوف اور احترام دونوں کے ساتھ لیا جا رہا ہے تو وہ ہے سی سی ڈی۔ باقی سب بس اجلاس میں لڑائی جھگڑے کرتے رہیں، مگر عوام کو صرف یہ معلوم ہے کہ ان کی گلیاں محفوظ ہیں اور چور ڈاکو چھپے بیٹھے ہیں – کیونکہ چھٹہ صاحب جاگ رہے ہیں۔


