تحریر : اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
چکوال میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے پولیس، ریسکیو اور عوام سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک نوجوان نے سی سی ڈی کی جانب سے نیفے میں پسٹل چلنے بارے سن کر اس نے اپنی زندگی کی “بُری عادت” ترک کرنے کے لیے ایک انوکھا قدم اٹھایا اور خود کو تالا ڈال کر عہد باندھ لیا کہ اب وہ غلطی نہیں کرے گا۔
رات کو سب کچھ ٹھیک رہا لیکن جیسے ہی صبح کا سورج نکلا، تالا اپنی گرفت سخت کرتا گیا اور نوجوان مشکل میں پھنس گیا۔ درد اور سوجن کی وجہ سے وہ سیدھا اسپتال جا پہنچا، مگر جب ڈاکٹروں نے پوچھا کہ یہ سب کیسے ہوا تو موصوف نے شرم کے مارے کہا کہ کسی نے اس کے ساتھ یہ حرکت کی ہے۔
ہسپتال نے پولیس کو بلایا، پولیس نے ریسکیو 1122 کو۔ اور یوں ایک “ایمرجنسی آپریشن” کیا گیا۔ کٹر سے تالا کاٹ کر نوجوان کو آزاد کرایا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ ریسکیو اہلکار بھی اس انوکھے کیس کو اپنی تاریخ کا سب سے یادگار واقعہ قرار دے رہے ہیں۔ بعد میں تحقیقات سے پتا چلا کہ کہانی میں کسی دشمن یا سازش کا عمل دخل نہیں تھا بلکہ نوجوان نے خود ہی قریبی دکان سے تالا خریدا تھا۔ اس کے مالک زمیندار اور دکاندار دونوں نے تصدیق کر دی۔
یوں چکوال کا یہ “انوکھا تجربہ” اختتام کو پہنچا۔ عوامی تبصرے میں کہا جا رہا ہے کہ اگر عزم پختہ ہو تو عادتیں چھوڑی جا سکتی ہیں، لیکن تالے لگا کر نہیں — ورنہ آخرکار کٹر ہی چلانا پڑتا ہے۔


