قاہرہ: اسرائیلی کابینہ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے تحت غزہ میں جنگ بندی اور حماس کے زیر حراست تمام یرغمالیوں کی رہائی اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی منظوری دے دی۔ اس منظوری کو مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم کرنے والی دو سالہ تباہ کن جنگ کے خاتمے کی جانب ایک اہم قدم مانا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے دفتر سے ایک مختصر بیان میں کہا گیا ہے کہ کابینہ نے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدے کے "خاکہ” کی منظوری دے دی۔ بیان میں اس منصوبے کے دیگر پہلوؤں کا ذکر نہیں کیا گیا جو زیادہ متنازعہ ہیں۔
ایک اسرائیلی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ معاہدے کے مطابق جنگ بندی حکومت کی منظوری کے فوراً بعد شروع ہونی چاہیے۔ اسرائیلی فوج کے پاس اب 24 گھنٹے ہیں کہ وہ اپنی افواج کو ایک متفقہ لائن کی طرف واپس لے جائیں۔
امریکی حکام نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی مانیٹرنگ کے لیے 200 کے قریب فوجی اسرائیل بھیج رہے ہیں جو شراکت دار ممالک، غیر حکومتی اداروں اور نجی شعبے کے اہلکاروں پر مشتمل ٹیم کا حصہ ہوں گے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ اسرائیل میں ’سول ملٹری کوآرڈینیشن سینٹر‘ بنانے جا رہا ہے جو غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل سمیت لاجسٹکل اور سکیورٹی امور میں مدد فراہم کرے گا۔
پہلی مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی نگرانی اور امریکی فوج کے کردار کے حوالے سے اس نوعیت کا بیان سامنے آیا ہے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی فوجیں کوآرڈینیشن سینٹر میں شامل ہوں گی۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ سینٹر کے قیام اور منصوبہ بندی کے لیے فوجیں علاقے میں پہنچنا شروع ہو گئی ہیں۔

