تحریر: اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ اب صوبے بھر میں میٹرک اور انٹر پاس ایس ایچ اوز کا دور ختم، صرف گریجویٹ افسران ہی تھانے کی کرسی سنبھالیں گے۔ شرط یہ بھی عائد کر دی گئی کہ نئے ایس ایچ اوز کا کردار صاف اور اخلاق اچھے ہوں۔
بظاہر یہ فیصلہ کسی بڑے انقلاب کی خبر دیتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ پرانی بوتل میں نئی شراب سے زیادہ کچھ نہیں۔یہ وہی تھانے ہیں جہاں آج تک انصاف نہیں بٹا بلکہ “فون” بکا۔ جہاں بے قصور حوالات میں اور بااثر لوگ مہمان خانوں میں بیٹھتے ہیں۔ جہاں فائلوں سے زیادہ رشوت کی رسیدیں اور ڈنڈے کی چھاپ عوام کے ذہنوں پر لکھی جاتی ہیں۔
اب سوال یہ ہے: اگر میٹرک پاس تھانیدار عزت دینا نہیں جانتے تھے، تو کیا گریجویٹ تھانیدار رشوت لیتے وقت انگریزی میں “Thank you” بھی کہا کرے گا؟میٹرک پاس تھانیداروں کی تاریخ بڑی تابناک رہی ہے۔ سنتری ڈیوٹی سے ترقی کا آغاز ہوا، ناکے پر سگریٹ سلگائے، وڈیرے کی ٹانگیں دبائیں اور پھر تھانے دار بن بیٹھے۔ انصاف کو قانون کی کتاب میں ڈھونڈنے کے بجائے ہمیشہ وڈیرے کے فون میں تلاش کیا۔ درخواست دینے والے کو عزت کی جگہ جوتی دی اور ایف آئی آر کی قیمت مقرر کر دی۔
اب عدالت چاہتی ہے کہ گریجویٹ ایس ایچ اوز آئیں اور تھانے بدل جائیں۔ شاید یہ نیا تھانیدار ایف آئی آر لکھنے سے پہلے “ایبسٹریکٹ” دے، رشوت لینے سے پہلے “انوائس” بنائے اور ملزم کو مارنے سے پہلے قانونی دفعات بھی پڑھ کر سنائے۔ عوام کو یہ تسلی تو ضرور ہوگی کہ اب ڈنڈا پڑے گا تو پڑھے لکھے ہاتھوں سے پڑے گا۔لیکن اصل حقیقت یہی ہے کہ یہ فیصلہ صرف ڈگری کی تبدیلی ہے، سوچ کی نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ تھانیدار کی پوسٹنگ کے آرڈرز کہاں سے آتے ہیں اور آرڈرز لینے کا طریقہ کیا ہے۔ عملی طور پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ گریجویٹ ایس ایچ او محض نمائشی افسر ہوتا ہے، جبکہ اس کے ماتحت میٹرک پاس سب انسپکٹر کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر گریجویٹ ایس ایچ او اعلیٰ افسر سے شکایت کرے تو جواب ملتا ہے: “سیاسی شخصیت کا حکم ہے، آپ صرف کاغذی ایس ایچ او ہیں۔” مان گیا تو ٹھیک، ورنہ رخصت پر بھیج دیا جاتا ہے اور عارضی چارج پھر وہی پرانا میٹرک پاس تھانیدار سنبھال لیتا ہے۔یوں لگتا ہے کہ سانپ ہو یا پانی، اپنا راستہ بنا ہی لیتے ہیں۔ اور سیاسی شخصیات اور وڈیرے ان راستوں کے ماہر ہیں۔
ڈگریاں بدل سکتی ہیں، وردیاں بدل سکتی ہیں، لیکن اگر سوچ اور نظام نہ بدلے تو تھانہ عوام کے لیے وہی پرانا تھانہ رہے گا چاہے اس کا تھانیدار میٹرک پاس ہو یا گریجویٹ۔


