تحریر:اسد مرزا
جہاں لفظ بےنقاب ہوں… وہیں سے سچ کا آغاز ہوتا ہے
پاکستانی عوام جب بھی کسی آفت میں ڈوبتے ہیں تو ایک نیا کھیل شروع ہوجاتا ہے—ریسکیو نہیں، بلکہ کیمروں کے سامنے ریسکیو کا ڈرامہ۔
کسی بھی قدرتی آفت کے موقع پرمتاثرین مدد اور امید کی تلاش میں ہوتے ہیں، انہیں ایک ایسے کندھے کی تلاش ہوتی ہے جس پر سر رکھ وہ اپنا غم ہلکا کرسکیں لیکن انہیں ملتے ہیں فوٹو شوٹ۔۔۔ یہ سیاسی ڈرامے اور خودنمائی ان کی ہمت توڑ کررکھ دیتی ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ سیاستدانوں کے لیے عوام کی فلاح و بہبود سے زیادہ اپنی ذاتی شہرت اور ووٹ بینک کی فکر اہم ہے۔
اس بار بھی سیلاب آیا تو پانی کے ریلے کے ساتھ ساتھ حکومتی وفود، فوٹوگرافرز اور کیمرہ مینوں کی کشتیاں بھی بہہ آئیں۔ منظر کچھ یوں تھا کہ ہر کشتی میں ایک متاثرہ خاندان کے بجائے درجنوں افسران، وزیر اور میڈیا ٹیمیں بیٹھیں، تاکہ عوام کو یہ دکھایا جا سکے کہ ’’ہم آپ کے ساتھ ہیں‘‘۔
لیکن سوال یہ ہے کہ جب ساری کشتیاں حکومتی پروٹوکول لے ڈوبیں، تو عوام کے لیے کشتی کہاں بچی؟ یہ صورتحال کچھ ویسی ہی ہے جیسے کسی محلے کے چار بھائی ٹیکسی خرید کر دیہاڑی لگانے نکلیں لیکن شام تک کوئی سواری نہ ملے—کیونکہ ساری سیٹیں وہ خود ہی گھیر کر بیٹھے ہوئے تھے۔ پنجاب کی ریسکیو کشتیاں بھی آج کل کچھ ایسی ہی ہیں: جگہ متاثرین کے لیے نہیں بلکہ فوٹو سیشن کے لیے مخصوص ہے۔ متاثرہ لوگ پانی میں کھڑے ہاتھ ہلا ہلا کر مدد مانگتے ہیں، لیکن کشتی میں بیٹھے ’’سیلفی سیلاب‘‘ کے ہیرو صرف کیمرے کی طرف ہاتھ ہلا کر مسکراتے ہیں۔ بچے پیٹ کی بھوک سے بلک رہے ہیں، خواتین چھتوں پر پناہ لیے بیٹھی ہیں، مگر حکومتی کشتیاں دور سے گزر کر اگلے فوٹو پوائنٹ پر جا پہنچتی ہیں۔عوام کے ساتھ یہ مذاق شاید دنیا کی تاریخ میں کہیں اور نہ ملے۔ کیونکہ یہاں ہر مصیبت میں حکومت، عوام کو بچانے کے بجائے اپنا امیج بچانے نکلتی ہے۔ اور اس مقصد کے لیے جو کشتیاں عوام کے لیے ہونی چاہییں، وہ ’’پریس کانفرنس‘‘ اور ’’کیمرہ فوٹیج‘‘ کے کام آتی ہیں۔
آخرکار عوام سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگر یہ ریسکیو ٹیمیں واقعی ان کے لیے آئی تھیں تو پھر آج بھی لاکھوں متاثرین پانی میں بے یارو مددگار کیوں ہیں؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں کشتیاں کم نہیں، نیتیں کم ہیں۔ عوام کے لیے نہ جگہ ہے نہ وقت—کیونکہ حکومتی تماشا گھر کو بھرنے کے لیے سب کچھ پہلے ہی بک چکا ہے۔
یہ رویہ جمہوری نظام کی بنیادوں کو کھوکھلا کر تاچلا جارہا ہے اور اب اس جمہوری تماشے سے عوام بہلنے والی نہیں ۔ اس کا ردعمل شدید آئے گا
“ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں مانو نہ مانو جانِ جہاں“


